Hum Nasheen 🥀 Most Bold Urdu Complete Novel Episode 1 by Anaiza Batool

ہم نشین

موسٹ بولڈ اردو ناول

https://youtube.com/playlist?list=PLaMUAf3zZV8UewzdEkcnYbL5x9vNRe77l&si=oTX7jmOR1Ny5yNlD
 

از قلم عنائزہ بتول

                

                     قسط نمبر ( ایک)                   
                     ‏

  ‏ وہ سڑک پر  بہت تیزی سے دوڑ تی ہوی جا رہی تھی  اور بار بار.  پیچھے دیکھے جا رہی تھی  ؛ پیچھے سے آوازے.  آرہی تھیں وہ.  لوگ اسے رکنے کو کہ رہے تھے  ۔ . ‏ . .  مگر وہ  رک نہیں سکتی تھی.  رکتی.  تو  عزت سے بھی جاتی اور جان سے بھی جاتی   وہ ان  لوگوں.  کے لیے  خود.  کو.  پیش  نہیں  کر سکتی   تھی ۔ .        دوڑتے ہوے    اچانک اسے ا حساس  ہوا کہ.  وہ.  ایک  سنسان  جگہ. ‏ پہ کھڑی  ہے.  وہ .  کب  سڑک سے.  اتر ی.  اور.  کب.  ایسی.  جگہ.  پہ.  آ گی.    جس.  کے  سامنے.  جنگل.  تھا   اور.  عجیب.  طرح.  کی. آوازے  اسے.  اتنی دور.  سے.  بھی آ  رہی.  تھیں۔۔  .  ایک  مصیبت  سے.  نکلنے.  کے.  لیے.  وہ.  ایک  اور  مصیبت  میں.  پھس.  چکی. .  تھی .   اسی.  رونا. . آنے لگا  اب  وہ. .  کیا  کرے   اس  دنیا.  میں  ہر  جگہ  بھیڑیے.  چیر  پھاڑ  کے  کھا نے.  کو.  تیار.  رہتے ہیں۔ : کافی .  دیر.  رونے.  کے  بعد اب.  اسے  بہت  ڈر  لگنے.  لگا.  تھا  ۔ اب  رات کے.  اندھیرے.  چھانے.  لگے  تھے.  اب   سامنے  والے.  جنگل  سے  آوازوں  میں.  اضافہ    ہو.  گیا  تھا  کا.فی .  وقت سے.  ایک.  جگہ .  بیٹھنے  کی  وجہ سے   اس کی ٹانگوں.  میں بھی  درد.  ہونے  لگا.  تھا ۔   شاید  کہیں  پاس کوئی  آبادی ہو.  اگر.  ایسا ہوا  تو  اچھا  ہو جائے گا   یہ.  سوچ آتے  ہی وہ.  اٹھ.  کھڑی.  ہوئی.  اور  ایک سمت میں.  چلنے.  لگی نا جانے  کتنی  دیر تک وہ چلتی   گی . .  کہ.  اچانک اسے.  دور.  روشنی  دکھای  دی  جو.  کہ.  اس گھر.  سے آ.  رہی.  تھی ۔.   یہ.  دیکھتے ہی اس  کی  رفتار.  تیز.  ہو گی  قریب   جانے  پہ وہ  گھر  نہیں  بلکہ ایک فارم ہاؤس .  تھا  ۔  مگر   دروازے  پر  کوئی نہیں تھا اور  دروازہ  کھلا.  ہوا تھا ۔  وہ اندر.  داخل  ہو گی سامنے.  ہی.  دو  گاڑیاں  اور  ایک جیپ کھڑی ہوئی تھی : راہداری.  میں  اس کے.  بڑھتے  ہوئے قدم.  تب.  تھمے.  جب اس.  نے تین .  گولیوں  کی  آ واز  سنی  بےسا ختہ.  وہ  خوف.  سے.  چلای اور  اپنے کانوں  پہ  زور سے ہاتھ  رکھے  آ نکھیں.  سختی سے بھینچ.  لیکن کچھ  دیر. کے.  بعد  جب خاموشی   محسوس کر کے آنکھیں  کھولیں  تو.  سامنے چار مرد  بیٹھے تھے  اس.  کی نظریں  فرش پر  بکھرے  ہوئے  خون سے ہوتے ہوئے  آدمی  کی لا ش  پہ.  گیں جب کہ وہ چاروں  اسے.  گھور رہے تھے .  جیسے.  شکاری  شکا ر کو ۔۔.  جیسے  بھوکا  کھانے کو۔۔   جب اس  نے صوفے  پہ.  بیٹھے اس مرد  کو.  دیکھا جس کے  ہا تھ میں  گن   تھی   تب اسے  احساس ہوا کہ.  وہ  غلط  جگہ  آ چکی ہے    ‏اور  تب ہی اس نے اپنے ۔ جسم پہ بھوکی  نظر یں ۔ محسوس  کیں .   اس کے.  سفید رنگ.  میں.  گلابیاں  گلنے لگیں.    ‏ ۔  آخر گاوں.  کی.  سا دہ  اور.  خالص خوراک پہ.  تو.  جوان ہوی  تھی۔۔۔۔۔ ڈوبٹہ  شا ید  بھا گتے ہو ے  گر  چکا تھا   ۔ پسینے سے  بھیگی  ہوی قمیض جو کہ  جسم سے چپکی تھی اس.  کے  بدن  کا ہر.  زاویہ  آیاں.  تھا  قمیض کی  قید میں.  جکڑے  ہوے  مضبوط.  ابھار    ہر ۔ سا نس کے ساتھ   اپنے.   ذندہ ہونے.  کا احساس   دلا رہے تھے اور.   وہا ں موجود  وہ چا روں.  مرد  یہ.  احساس اچھی طرح کر چکے  تھے اس نے  اچانک  جلدی سے بھا گنا.  چاہا  لیکن.  دیر.  ہو.  چکی.  تھی۔۔۔۔ ان چاروں مردوں میں سے ایک مرد اٹھا اور اس کو بالوں سے پکڑ کر  ایک ہی جھٹکے میں  صو فے پر بیٹھے ہوئے مرد کے قدموں میں پھینک دیا   اور خود وہ گندے قہقہے لگانے لگ گئے  کافی ‏ ‏ دنوں کے بعد بہت اچھی چیز دیکھنے کو ملی ہے صرف دیکھنے کو ،،،،،،  ان میں سے ایک اور بولا ‏ ان چاروں کی ہنسی بہت معنی خیز تھی ‏ ‏ جیسے ہی وہ نیچے گری اس کے جھکنے سے اس کے زرخیز سینے کے نشیب و فراز بہت واضح ہوگئے جو تنگ سی شرٹ میں سختی سے جکڑے ہوے تھے  یہاں تک کہ اس کی  سفیدچھاتیوں کا  گلابی رنگ  سا حصہ بھی کچھ نمایاں ہونے لگا جو کہ صرف آریان ہی دیکھ سکتا تھا ‏ اس کے قمیض کا گلا چونکہ کافی گہرا تھا اسی لیے  سب کچھ صاف نظر آ رہا تھا  اگر  وہ کچھ مزید جھکتی تو یہ ممکن تھا کہ اس کی چھاتیاں قمیض کے گلے سے باہر آ جاتی  مضبوط سڈول چھاتیاں جو کہ باہر آنے کو بے قرار نظر آتی تھی ‏ ‏ دیکھ آریان میں جانتا ہوں کہ آج تیرا موڈ کچھ خراب ہے اس لئے پہلے تو اور بعد میں ہم ‏ ‏ کیوں یار بعد میں کیوں پہلے بھی تو  ہم سب ایک ساتھ کرتے تھے نا تو  آج کیوں نہیں۔۔۔۔  ان سب میں سے حاشر بولا اس کو اس پے اعتراض تھا ‏ اصل میں اس کو دیکھنے کے بعد وہاں بیٹھے ہیں  چار مردوں کی نیت خراب ہو چکی تھی۔۔۔ ۔ پلیز پلیز مجھے جانے دیں میں یہ یہاں سے جانا چاہتی ہوں پلیز میرے ساتھ یہ  سب کچھ مت کریں ۔۔۔۔۔ وہ روتی ہوئی آریان کی منت کرنے لگی ۔ دیکھ لڑکی تو نے ہمیں ایک قتل کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے اب ہم تجھے  یہاں سے کہیں بھی جانے نہیں دیں گے تیرے لیے بہتر یہی ہے کہ تو یہاں پر رک گیا اور ہم سب کا دل خوش کر ۔۔ (  اس سب کے بیچ پہلی دفعہ ؤہ  بولا تھا اور اس کے آوازمیں وہاں موجود سب سے زیادہ  روعب تھا   اور لہجہ غصے والا تھا)۔   اور اس کی نظریں بار بار اسکے چہرے سے ہوتے ہوئے اس کے گریبان میں موجود  چھاتیوں کے نظر آنے والے گلابی پن پہ تھیں تمہارا نام کیا ہے  ایک ہاتھ سے اس کا چہرہ تھوڑی سے اوپر کرتے ہوئے اریان نے پوچھا ‏ جب کہ وہ جواب دینے کی بجائے مسلسل رونے لگی ‏ تو آریان  کو غصہ آنے لگا میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں کہ تمہارا نام کیا ہے جلدی بتاؤ ورنہ میں تمہارے ساتھ بہت برا پیش ہوگا   زرین  نام ہے میرا  زرین خان ۔۔۔  اس نے روتے ہوئے جلدی سے بتایا   ‏ اور اپنا یہ رونا دھونا بند کرو ہم تمہیں زبردستی یہاں اٹھا کے نہیں لائے تم اپنی مرضی سے آئی ہو ۔۔ مگر اب تم جاؤ گی کہ ہماری مرضی سے یہ ان چاروں کے گروپ کا قانون تھا کہ جب آریان بات کر رہا ہوتا تھا تو بیچ میں کوئی دوسرا بات نہیں کر سکتا تھا ۔۔ اور اس کے تینوں دوست اس پے عمل بھی کرتے تھے ان تینوں میں آپس میں بہت سلوک اور محبت تھی یکدم آریان صوفے سے اٹھا اور  زرین کو بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے لگا  جب کہ اس کے تین دوست قہقہے لگانے لگے۔  کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آب کیا ہونے والا ہے۔ ۔   آریان کا طریقہ بہت شدت پسند تھا۔  اتنا شدت پسند ہوتا تھا کہ ہر دفعہ لڑکی کی چیخوں سے پورا فام ہاؤس گونجتا تھا۔۔۔ ‏ اور ہر دفعہ وہ چاروں ان چیخوں کو انجوائے کرتے تھے  جب کہ وہ بری طرح رونے اور چیخنے لگی پلیز مجھے چھوڑ دو پلیز میں ایسی لڑکی نہیں ہوں پلیز ایسا تو مت کریں میرے ساتھ ‏ مگرآریان اس کی ایک بھی نہ سنتے ہوئے اسے لیے  سیڑیاں چڑھنے لگا   کیونکہ اس کا بیڈروم اوپر والےفلور پہ تھا   اس نے اس کو دیکھتے ہوئے بیڈروم  کا دروازہ کھولا اور اسے بیڈ پہ  پٹک دیا پلیز یہ سب مت کریں میرے ساتھ آپ کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں میں پہلے ہی مجبور ہوں آپ   ایسا نہیں کر سکتے ‏ میں اپنی مرضی سے آپ کے فارم ہاؤس میں نہیں آئی میرے پیچھے کچھ لوگ تھے جو کہ آپ کی طرح میرے جسم کو نوچنا چاہتے تھے میں تو ان سے اپنے عزت بچاتے ہوئے بھاگ رہی تھی  لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ تم بھی ایک جانور ہو شرٹ اتار تے  ہوئے   اس کے ہاتھ ایک لمحے کو رکے۔  ۔۔  کیا کہا تم نے میں جانور ہوں ‏ ہاں بالکل تم جانور ہو یہاں پر تم سب جانور ہو جن کو صرف اور صرف جسم کی بوٹیاں چاہیے ‏۔۔۔۔۔۔ اگر میں جانور ہوں تو میں آج بتاتا ہوں تمہیں کہ  جانور کیا ہوتا ہے ۔۔۔ اور ایک ہاتھ سے شرٹ دور اچھالی۔ اور اس کے اوپر۔ جمپ مارتے ہوے۔ گرا ‏  آریان کے اس طرح گرنے سے صرف  زرین۔ ہی نہیں  بیڈ۔ بھی  چیخ اٹھا ۔۔ زرین۔ بہت بری۔ طر ح سے۔ رونے لگی  اس کے انگ انگ میں۔ شدید۔ تکلیف ہورہی تھی ۔  آخر۔ کہاں وہ نازک  سی جان اور کہا ں  باڈی بلڈر   لوہے جیسا مضبوط۔۔۔۔ اس کے رونے کی پرواہ کیے بغیر   وہ سختی سے اس کے اوپر جھکا ہوا تھا اس کی گردن پے جگہ جگہ اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا گردن سے ہوتے ہوئے وہ اس کے سینے پر جا پہنچا اور اس کی چھاتیوں کو قمیض کے اوپر سے ہی ہاتھوں سے زور زور سے دبانے لگا  اتنے زور سے کہ اس کی کہ چھاتیوں کی سختی  اس کے ہاتھوں کو محسوس ہونے لگی ۔۔۔۔۔  جبکہ زرین اتنی سختی پے مزید رونے لگی۔۔۔ مگر آریان کو اس کے رونے کی کوئی پروا نہیں تھی اس کو تو صرف اس کے جسم سے پروا تھی ‏ ہاتھوں سے دباتے ہوئے  اچانک اس نے ایک چھاتی کو قمیض کے اوپر سے ہی اپنے منہ میں لے لیا  اور دانتوں سے کاٹنے لگا۔۔  کبھی کاٹتے کاٹتے اس کی چھاتی کو زور سے کھینچ لیتا  جبکہ دوسری چھاتی کو ہاتھ سے زور زور سے مسلنے لگا ۔۔ ‏ زرین اس ظلم پر چیخ رہی تھی اور اپنے آپ کو چھڑوانے کے لئے ہاتھ ہلا رہی تھی۔  اپنے ہاتھوں سے وہ اس کے سینے پر تھپڑ مار رہی تھی۔ آریان کو اپنے کام میں اس کے ہاتھ غیر ضروری لگ رہے تھے  اس لیے  اس کےچہرے پے ایک زور دار تھپڑ مارا اور اسے کہا کہ چپ ہو جاؤ اور اپنے ہاتھ قابو میں رکھو  ورنہ اس سے بھی برا کروں گا ‏ اس سے برا تم کیا کرو گے میرے ساتھ جو تم کر رہے ہو کہ یہ کم برا ہے  ‏ اگر تم یہ سب کرنا چاہتے ہو تو پلیز میری ایک بات مان لو پھر تم جو چاہے کر لینا میں تمہیں نہیں روکوں گی ‏ کیا تمہیں لگتا ہے کہ  تم مجھے روک سکتی ہو یا مجھے تمہاری اجازت کی ضرورت ہے   مجھے تمہاری کوئی بات نہ سننی ہے نہ ماننی ہے   مجھے جو کرنا ہے وہ میں کر لوں گا اور تم مجھے نہیں روک سکتی ‏ اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کے بے دردی سے چوسنے اور کاٹنے لگا  اور اسی طرح اس کے چحاتیوں کو قمیز کے اوپر سے ہی زور زور سے مسلنے لگا  جیسے آج ان کی ساری سختی ختم کر دے گا ‏ اس گلابی پن کو دیکھنے کے لئے بہت بے قرار ہو رہا تھا اسی لیے اس کی شرٹ کو اوپر۔ اٹھانے لگا جو اس قدر تنگ  تھی کہ جیسے۔ پہن کہ سلائ کی ہو۔۔ ‏ کیسے مرد ہو تم میں تھوک تی  ہوں تم پہ  تم اپنی مردانگی دکھانے کے لئے ایک لڑکی کو بستر پہ تو رکھ سکتے ہو لیکن اسے اپنے نکاح میں نہیں لے سکتے    اگر تم واقعی مرد ہوتے تو مجھ سے نکاح کر تے پہلے    یوں اس طرح یہ نہ کرتے مجھ سے یہ تو وہ کرتے ہیں جو کمزور ہوتے ہیں ‏ اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ دن کو کسی کو اپنا چہرہ نہیں دکھا سکتے اس لیے رات کے اندھیرے میں چھپ کے یہ حرکت کرتے ہیں زرین کے یہ لفظ جیسے کہ تلوار کی طرح آریان کو لگے تھے  ایک دو ٹکے کی لڑکی اسے کمزور کہہ رہی تھی ۔   سب جانتے تھے کہ وہ بہت طاقتور ہے اور یہاں اسے کمزور کہاں جا رہا تھا ۔  وہ ایک جھٹکے سے اس کے اوپر سے اٹھا  ۔۔ زرین نے بے ساختہ  شکر کا سانس لیا  اس کا چلایا ہوا  تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔  اب یا تو اس کو مار دے یا ا ہو سکتا ہے اس سے نکاح کر لے ‏ لیکن اب وہ یہاں سے نہیں جا سکتی یہ تو وہ جان ہی  گئی تھی  اٹھو اور اٹھ کے اپنا حلیہ صحیح کرو  اپنی شرٹ اٹھا کے پہنتے ہوئے  آریان نے اسے حکم دیا۔  لیکن میں تم سے یہ سب کچھ کروں گا    تمہارے جسم پہلے جب تک میری مہر نہیں لگ جائے گی میں آرام سے نہیں بیٹھوں گا۔۔ اور دروازے کولوک کرتا ہوا۔  نیچے چلا گیا   جہاں اس  کے دوست تاش کھیل رہے تھے۔۔ ‏ تو اتنی جلدی نیچے آگیا کیا پسند نہیں آئی تجھے ۔۔۔  ولید بولا فضول بکواس نہیں کرنی اور جاؤ اور جا کے کہیں سے بھی ایک مولوی پکڑ کے لاؤ ‏ مولوی مگر کیوں۔  کیا نماز پڑھنے کا موڈ ہو رہا ہے تمہارا۔۔۔۔۔   یہ حاشر تھا جو کہ ہر بات اسی طرح کرتا تھا میں نے کیا کہا ہے فضول بکواس مت کرو اور جاکے مولوی لے کے آؤ ۔۔۔  آپ کے وہ غصے سے ڈھاڑا تھا ولید اور عثمان جلدی سے اٹھے گاڑی کی چابی لے کے باہر نکل گئے۔۔۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد   آریان دوبارہ سے کمرے میں آیا اوراسے بیڈ شیٹ کی چادر اوڑھنے کو کہا  ۔۔ ‏ زرین حیران ہوتے ہوئے چادر اور کے بیٹھ گئی ‏ اور کچھ ہی دیر بعد مولوی اور وہ چاروں  کمرے میں داخل ہوگئے مولوی نکاح شروع کرو۔   آریان نے غصے سے کہا ‏ اس کے تین دوست بہت حیران تھے کہ یہ کیا کر رہا ہے ‏ یار تو نکاح کیوں کر رہا ہے جب نکاح کے بغیر ہم چاروں مستی کر سکتے ہیں ۔۔۔۔  عثمان نے آریان کو کہا جبکہ آریان صرف زرین کو غور سے دیکھ رہا تھا ‏ اپنا پستول نکالتے ہوئے اس نے ٹیبل پر رکھا ‏ مولوی نکاح شروع کرو ‏ مولوی نے نکاح شروع کر دیا شاید وہ پستول دیکھ کر اندازہ کر چکا تھا کہ انکار کی صورت میں وہ اپنی جان سے جائے گا ‏ زرین جانتی تھی کہ نکاح کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں ہے اس لیے تو چپ چاپ ک قبول ہے بول دیا ۔۔  اور نکاح کے بغیر وہ اس شخص کو کبھی بھی اپنا جسم نہیں دے سکتی تھی۔۔۔ نکاح ہو چکا تھا  حاشر اور ولید مولوی کو چھوڑ کے چلے گئے حاشر اور ولید مولوی کو چھوڑنے چلے گئے ۔ ‏ عثمان کو آریان نے کمرے سے جانے کو کہا دروازہ بند کرکے زرین کو گھورنے لگا۔   وہ جانتی تھی کہ اب اس کے ساتھ بہت برا ہونے والا ہے اس لئے اپنی آنکھیں جھکا کے بیٹھ گئی۔۔ ‏ آریان چلتا ہوا اس کے پاس آیا    اور اس کا چہرہ  تھوڑی سے اوپر اٹھایا اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا  ان کو سختی سے چوسنے لگا  اور کاٹنے لگا ‏ کافی دیر تک وہی عمل دہراتا رہا  یہاں تک کہ ز زرین کا سانس بند ہونے لگا   تو اسے چھوڑا آج رات کو تیار آج میں تمہیں بتاؤں گا کہ جانور کیا ہوتا ہے ‏ اس سے دور ہوتے ہوئے کہا ‏ اور دروازہ بند  کر کے چلا گیا ‏ زرین اپنی قسمت پہ رونے لگی وہ بچپن سے اپنی خالہ کے گھر رہتی تھی  لیکن بدقسمتی سے خالہ کے موت کے بعد    اس گھر میں جو لوگ تھے وہ اس کی عزت کے دشمن تھے  اپنے آپ کو بچاتے ہوئے وہ تھک گئی تھی  تو گھر سے بھاگ گئی مگر سے بھاگنا  بھی کام نہیں آیا ‏ اس کا خوبصورت جسم اور سرخ و سفید  رنگ  اس کیلئے مصیبت بن چکا تھا ‏ ہو رات کو سوچتے ہوئے ابھی سے خوفزدہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جاری ہے ،،،،
First
0 Komentar