#ہم_نشین
از قلم عنائزہ بتول
بولڈ اردو ناول
لاسٹ اپیسوڈ (پارٹ ون)
Hum Nasheen
Written by Anaiza Batool
Copyright owner
Novel Dot Com Official
Last Episode ( part 1)
Most Bold Urdu Novel
وہ بھاگتا ہوا ہاسپٹل میں داخل ہوا تھا ،،
سامنے ہی حاشر کے روم کے باہر اس وقت وارڈ بوائے کسی کو سٹریچر پہ ڈال کر لے جارہے تھے ، قریب جانے پہ اس کی فرش پہ بکھرے خون سے ہوتی سٹریچر پہ لیٹے حوالدار پہ گئی تھی ،، اس کے چلتے قدم تھم گئے تھے ،،
وہ خون میں تر تھا ،، اس کا یونیفارم خون سے سرخ نظر آرہا تھا ،، وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اس نے وہاں پہرے کے لیے کھڑے کیے تھے ۔۔
وہ اس وقت انہیں کپڑوں میں تھا جن میں وہ آریان کے نکاح میں شامل ہوا تھا ،،
وہ وہاں سے پیچھے ہٹتا روم کا دروازہ کھولتا اند داخل ہوا تھا ، اگرچہ اسے خبر مل گئی تھی کہ حاشر نے بھاگنے کی کوشش کی ہے ،، لیکن ہو سکتا تھا وہ کمرے میں ہوتا لیکن وہ کمرے میں نہیں تھا ،،
وہ وہاں سے ڈورتا ڈاکٹر کے روم کی طرف بھاگا تھا راستے میں ہی اسے سیڑھیوں کی طرف شور سنائی دیا تھا،،
اس سے پہلے کے وہ چھت کی طرف ڈوڑتا اس کی نظر نیچے اترتے انسپیکٹر علی پہ گئی ،،
اسے ہی یہاں کی سیکیورٹی کی زمہ داری دی تھی اس نے ،،
شکر ہے سر آپ آگئے ،،
وہ عثمان کی طرف دیکھتا آگے بڑھا تھا ،،
علی کیا ہے یہ سب ،
ادھر حوالدار کاشف کی لاش خون میں بھری پڑی تھی ،، اور وہ حاشر کدھر ہے ،،
کیا ہو رہا ہے یہ سب ،، تم لوگ ،،
عثمان اسے دیکھتے ہی بولنا شروع ہو گیا تھا ،،
اس کی غلطی تھی اس نے ایک نئے آئے لڑکےکو اتنی بڑی زمہ داری دے دی ،،
وہ تو پہلے ہی اوپر سے سخت پریشر برداشت کررہا تھا ، اور اب پتا نہیں کیا ہو گیا تھا
سر پلیز اس وقت ان سب سوالوں کا وقت نہیں ہے ،،
وہ حاشر اس وقت چھت پہ ہے سر ،، اور اس نے ایک چھوٹے سے بچے کو یرغمال بنارکھا ہے ،
کہتا ہے اسے یہاں سے نکالیں ورنہ وہ بچے کو گولی مار دے گا ،،
سر جلدی چلیں وہ بچہ بیمار ہے ،،
وہ اسے مار دے گا ،،
وہ پہلے ہی ہمارے ایک حوالدار کو مار چکا ہے سر پلیز جلدی کریں ۔۔
وہ عثمان کو ساری بات بتاتا اپنے پیچھے آنے کو کہہ رہا تھا ،، اور عثمان اس کو بے انتہا غصہ آیا تھا ،،
تمہیں میں نے یہاں اس لیے کھڑا کیا تھا ،، اتنا سب ہوگیا اور تم لوگ سب ایک مجرم تک کو پکڑ نا سکے ،،
وہ غصے میں بولتا اوپر جا رہا تھا ،، وہ لوگ لفٹ استعمال نہیں کر رہے تھے پہلے ہی بھگ ڈر مچی ہوئی تھی ، وہ مزید پبلک کو خوفزدہ نہیں کر سکتے تھے ،،
لیکن جیسے ہی وہ اوپر پہنچا ،
سامنے کا منظر دیکھ کر وہ بھی ڈر گیا تھا ،،
ہاسپٹل کی چھت پہ اندھیرا چھا رہا تھا ،، تیز ہوا چل رہی تھی ،، آسمان کالے بادلوں سے بھرا تھا ،، جو کسی بھی وقت برسنے کو تیار تھے ۔۔
حاشر ہاسپٹل کے ڈریس میں تھا ،، اس کے سر پہ اور ہاتھوں پہ۔حتٰی کہ چہرے پر بھی چھوٹی چھوٹی بنڈیج لگی ہوئی تھیں ،،،
اس کے ساتھ کھڑا وہ کوئی سات سے آٹھ سال کا بچہ ہو گا ،، جس کی گردن میں حاشر نے اپنا ایک بازو رکھا ہوا تھا ،، اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی گن بچے کی کنپٹی سے لگا رکھی تھی۔۔
بچہ کے ہاتھ پر ڈرپس کی سوئیاں لگی تھیں ،،
وہ مسلسل رو رہا تھا ،،
سامنے کھڑے حوالدار اور انسپکٹر حاشر پہ پستول تانے کھڑے تھے ۔۔
او
میرے بھائی ،، میرے دوست عثمان تم یہاں آگئے ،،
اب جلدی سے مجھے یہاں سے باہر نکالو ،، ورنہ میں سب کو مار دوں گا ،،
ہاں سب کو مار دوں گا ،،
تمہیں بھی ۔۔۔
ہا ہا ہاں۔۔۔۔
اور قہقہ
وہ اس وقت کوئی ذہنی مریض لگ رہا تھا ،، جو کہ عثمان کو دیکھتے ہی شروع ہو گیا تھا ،،
دیکھو حاشر تم اس بچے کو چھوڑ دو،،
پھر جو تم کہو کے وہ کریں گے ،،
وہ حاشر کو بہلا پھسلا کے بچہ کو اس سے لینا چاہتا تھا ۔
نہیں پہلے ان کو کہو اپنی گن نیچے کریں سب ،،
عثمان میرے بھائی مجھے بچا لے ،،
وہ روہانسی آواز میں بولا تھا ۔۔
عثمان میں تیرا دوست ہوں یار مجھے مار مت ،،
میں نے کچھ بھی جان کے نہیں کیا ،
عثمان مجھے بچا لے ۔۔
وہ رونے لگا تھا ۔۔
وہ عثمان کے آنے سے پہلے کسی سے بھی بات نہیں کررہا تھا ،،
ٹھیک ہے ،، وہ سب کو اشارہ کرتا بولا
یہ لو میری گن۔،،
اور یہ سب کی گن ہیں ۔۔۔
عثمان بس کسی طرح اس بچے کو چھڑوانا چاہتا تھا ۔
عثمان تھوڑا نرم پڑھ گیا تھا,
چار سال ۔۔
چار سال سے وہ ایک ساتھ تھے ،،
بہت سی اچھی یادیں بھی تھیں ۔۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید اس پہ ترس کھاتا اس کی آواز کانوں میں ٹکرائی تھی۔۔
تمہیں کیا میں پاگل لگتا ہوں ،،
حاشر قہقہ لگاتا بولا تھا ،،
پہلے میرے باپ کو چھوڑ،، پھر ایک ہیلی کاپٹر چاہیے مجھے ، پھر سوچوں گا ،،
وہ کمینگی سے بولا تھا ،،
سامنے کھڑا انسپکٹر علی مسلسل حاشر کو گولی مارنے کا اشارہ کر رہا تھا ،،
وہ جانتا تھا عثمان کے پاس ایک اور گن تھی ،،
چپ کر بے سالے ،،
کس طرح منہ کھولا ہوا ہے ،،
حاشر روتے ہوئے بچے کے منہ پہ تھپڑ مارتا بولا تھا ،،
وہ بچے کو لیے چھت کے کنارے پر کھڑا تھا ۔
عثمان کی برداشت یہیں تک تھی ۔۔
بچہ رو رو کے ہلکان ہو گیا تھا ،،
ٹھاہ ،،
ٹھاہ ۔۔
عثمان نے بجلی کی سی تیزی سے گن نکالتے ہی دو فائر کیے تھے،
حاشر اپنا بیلنس نہیں رکھ پایا تھا ، اور آنکھ جھپکتے ہی وہ نیچے جا گرا تھا ،،
ہاسپٹل کی سات منزلہ عمارت سے وہ پلک جھپکتے ہی نیچے گرا تھا ،، سامنے کھڑے حوالدار نے بھاگ کر بچے کو پکڑا تھا ،،
یہ کیا ہو گیا تھا ،،،
وہ کچھ سمجھ نہیں پایا تھا ،،
حاشر کہاں گیا تھا ،،
عثمان کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں آگے بڑھتا نیچے دیکھنے لگا ،، وہ سر کے بل سڑک پہ گرا تھا ،، خون سڑک پہ پھیلا ہوا تھا ،،
وہ مر گیا تھا ،،
حاشر مر گیا تھا ،،
اس نے اپنے دوست کو مار دیا تھا ۔۔
لیکن اگر وہ اسے نا مارتا تو وہ بھی مجرم ہوتا ۔۔
نیچے اس کی لاش اٹھائی جا رہی تھی ۔۔
وہ شکست زدہ قدموں سے سیڑھیاں اترتا نیچے جا رہا تھا ۔۔
ان کی دوستی کو کسی کی نظر لگ گئی تھی ۔۔
یادیں ختم کرنا آسان نہیں ہوتا ۔۔
اس کی آنکھیں دھندلا گئیں تھیں ۔۔
منظر بدلا تھا ۔۔
وہ یونیورسٹی میں نئے آنے والے لڑکوں کی ریگنگ کر رہے تھے ۔۔۔
حاشر ان سب کے لیے برگر خرید کر لا رہا تھا ،،
اور وہ اس کی جیب خالی کر چکے تھے ۔۔
وہ ان کو گالیاں دے رہا تھا ۔ اور وہ سب قہقہہ لگا رہے تھے
ایک اور منظر بدلا تھا ،،
ان کی لڑائی ہو گئی تھی ۔
عثمان اور ولید بہت بری طرح سے پِٹ گئے تھے ،،
جب آریان اور حاشر نے آکر ان دس لوگوں کو وہاں سے بھگایا جو انہیں مارنے آئے تھے ۔
پھر منظر بدلا ،
وہ کراچی ساحل سمندر پر بیٹھے تھے
تبھی حاشر شرارت سے ان کے اوپر پانی اچھالنے لگا ،،
اور پھر وہ سب ایک دوسرے کو پانی سے بھگو گئے ۔۔
پھر منظر بدلا تھا
وہ لڑکیوں کے ساتھ کلب میں ڈانس کر رہے تھے ،،۔
جب پولیس کا چھاپہ پڑا ۔
عثمان تب پولیس میں نہیں تھا ،،
حاشر نے سب سے پہلے پولیس کو دیکھ لیا تھا ،،
وہ بہت مشکل وہاں سے باہر نکلے تھے ۔
اور وہ چاروں بچ گئے ۔۔
وہ ہاسپٹل سے باہر آگیا تھا ۔۔
لاش اٹھا کے لے جائی جا چکی تھی ۔۔
وہ ٹوٹے دل کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرگیا ،، یہ تو طے تھا وہ گھر نہیں جاسکتا تھا آج ۔
وہ سب دوست وقت میں کہیں گم ہو گئے تھے ۔۔
حاشر نے ولید کو مارنے کی کوشش کی ،،
اگر اس کی قسمت میں زندگی نا ہوتی تو وہ آج زندہ نا ہوتا ۔
اور وہ ایک اور دوست کھو چکا ہوتا ۔۔
ولی کی ماں ،،
اس معصوم عورت کو حاشر نے اپنے راز کھل جانے کے ڈر سے مار دیا ۔۔
آریان ،،
اس کی زندگی جہنم بنا دی اس نے ۔۔
آریان کے بابا۔۔
وہ جانتا تھا اس سب کے پیچھے وہاب ہمدانی تھا ،۔
لیکن لالچ میں حاشر اتنا آگے نکل گیا کہ اسے وہ تینوں دوست نظر نہیں آئے ۔۔۔
وہ ٹھوڑی دور جا کے گاڑی روک چکا تھا ۔
سیٹ کی پشت سے سر ٹکاٹا وہ آنکھیں بند کرگیا تھا ۔۔۔
کچھ بھی ہو وہ مجرم تھا ، اس نے اپنی ڈیوٹی کی تھی۔
اگر وہ اسے چھوڑتا دوستی کے لیے تو وہ باقی دوستوں کو خطرے میں ڈال دیتا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Zareen Pov.
میں زرین خان ،،
یا پھر زرین ارتضیٰ آفندی
میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو ایک ایسے گھر میں پایا جہاں میری قدرو اہمیت نا ہونے کے برابر تھی
میرا وجود وہاں موجود ہر شخص کے لیے ناقابل قبول تھا ۔۔
سوائے ایک انسان جو کہ میری خالہ تھیں..
ہاں وہ میری خالہ تھیں ۔ مجھے بچپن میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ میرے ماں باپ اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔
وہ میرا ہر ممکن حد تک خیال رکھتیں ۔
ان کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی ۔۔
میں نے جیسے ہی قدم جوانی کی دہلیز پہ رکھے بہت سی چبھتی نظریں میرے وجود کے آر پار ہونے لگیں ۔
جنہیں پہلے تو میں کم عمری کی وجہ سے سمجھ نہیں پائی ۔۔
میرا سکول ختم ہوا ۔
مجھے سکالرشپ پہ کالج میں داخلہ مل گیا۔۔
کیونکہ میں پڑھائی میں اچھی تھی ۔۔
گاؤں میں بہت سی میری دوستیں تھیں ۔۔
گاؤں میں بہت سے لڑکے جب میں بس سٹاپ پہ کھڑی ہوتی تو مجھے دیکھتے ، کبھی کوئی میرے نزدیک کوئی خط چھوڑ جاتا۔۔
لیکن میں ان سب چیزوں سے دور رہتی تھی ۔۔
مجھے پڑھ کے کچھ بن کے ازار زندگی گزارنی تھی ۔
میری زندگی کی قیامت اس دن ہوئی جس دن وہ سایہ دار شخصیت اس دنیا سے چل بسیں ۔۔
ان کے جانے کے کچھ دن بعد ہی میری عزت اور زندگی خطرے میں پڑی ۔۔
جب میری خالہ کا شوہر جسے ساری زندگی میں نے انکل کہا وہ مجھ سے نکاح کرنا چاہتا تھا ۔۔
مجھے میری دوست نے کہا میں ان ظالموں سے دور بھاگ جاؤں یہاں یہ میری بوٹیاں نوچ لیں گے اور میں نے ایسا ہی کیا ۔۔
بھاگتے ہوئے میں ایک ایسے شخص کی زندگی میں داخل ہو گئی جو خطرناک تھا ،، ظالم تھا ،، بے رحم تھا ،،
ستمگر تھا۔۔
اس نے میری ذات کا بھرم تو رکھ لیا مجھ سے نکاح کر کے ، لیکن اس نے مجھے ایک ایسی زندگی سے متعارف کروایا کہ مجھے خود سے ہی نفرت ہونے لگی ۔۔
وہ ہر رات میرے جسم کے بخیے ادھیڑتا ، ہر رات میرے جسم کو روندتا ، ہر رات میرے جسم کو کسی بے جان چیز کی طرح استعمال کرتا ،،
اور کب وہ شخص میرے زندگی کا اہم حصہ بن گیا مجھے پتا نہیں چلا ۔۔ اس کی قربت جو مجھے کراہیت اور نفرت کا احساس دلاتی تھی ، کب مجھے سکون دینے لگی میں یہ جان نہیں سکی ۔
اس کا جنون مجھے اچھا لگنے لگا ، اس کی شدتیں میری ضرورت بنتی گئیں ،، اور میں اس کی محبت میں ڈوبتی گئی ۔۔
آریان خانزادہ ۔۔
وہ شخص اپنے نام کی طرح ہی خوبصورت تھا ،،۔ مغرور تھا ،
ستمگر تھا ، میرا شوہر تھا ۔۔ میری ذندگی تھا ۔۔
میں محبت کے جذبے سے نا آشنا تھی اس نے مجھے اس جذبے سے متعارف کروایا ۔۔
میں خود کو غیر ضروری اور کمتر سمجھتی تھی ، اس نے اپنی محبت سے مجھے میری قدرو قیمت کا احساس دلایا ۔۔
اس کے میری زندگی میں آنے کے بعد مجھے سب مل گیا ، جس کی مجھے حسرت تھی۔۔
زرین خان مکمل ہوگئی تھی۔ آریان خانزادہ سے جڑنے کے بعد ۔
ارتضی آفندی میرے بابا ۔۔
مجھے بتایا گیا تھا میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے
ہر لڑکی کی طرح میں بھی اپنے ماں باپ سے ملنا چاہتی تھی ، تحفظ محسوس کرنا چاہتی تھی ۔۔
یہ بھی مجھے آریان خانزادہ کی وجہ سے نصیب ہوا ۔۔
میں نے باپ کی محبت حاصل کی ۔۔
ہر لڑکی کی طرح میرا بھی خواب تھا شادی کرنا ۔۔
دلہن بننا ۔۔
سجنا ، سنورنا ۔۔
مجھے لگا تھا شاید میں کبھی دلہن نہیں بن پاؤں گی ۔ کیونکہ بیوی تو میں بن گئی تھی ۔۔
لیکن مجھے میرے بابا نے دلہن کے روپ میں ایک بار پھر آریان خانزادہ کے سپرد کر دیا ۔۔
وہ جو ساری دنیا سے میرے لیے لڑا ہے
وہ جو میرے لیے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتا ۔۔
وہ جو مجھے ہر چیز سے زیادہ چاہتا ہے ۔۔
وہ جو میری محبت ہے ۔۔
ہاں وہ میری محبت ہے۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ۔۔
میں زرین ارتضیٰ آفندی آج سے ایک بار پھر زرین خان ہوں ۔۔
آریان خانزادہ کی بیوی ۔
خان فیملی کی بہو ۔ ۔
میں ہوں " زرین خان "
مجھے وہ سب ملا جس کی مجھے چاہت تھی۔
میں اس وقت آریان خانزادہ کے کمرے میں اس کی سیج پر بیٹھی ہوں۔
سکندر ولاء میں میرا استقبال آج بہت شاندار ہوا ۔۔
کیونکہ میں اس گھر کے اکلوتے بیٹے کی محبت ہوں۔۔
یہ کمرہ اتنا خوبصورت ہے ۔۔
اور سامنے لگا پورٹریٹ اس سے بھی زیادہ حسین ۔۔۔
پورٹریٹ میں نظر آنے والا شخص بہت خوبصورت ہے۔
صاف اجلی رنگت۔
براؤن بال ۔۔
ہلکی داڑھی ، اور مونچھیں ۔۔
یہ شخص میرا تھا ۔۔
اس شخص کو مجھ میں کیا نظر آیا جو میرے لیے دنیا تیاگ دی ۔۔
میں اکثر یہ سوچتی ہوں ۔۔
میرا دل زور سے دھڑک رہا ہے کیونکہ کمرے کے باہر قدموں کی آواز آرہی ہے ۔۔
اس ستمگر کے قدموں کی چاپ ۔۔۔۔
شاید کھڑکی کے باہر تیز بارش ہو رہی تھی ۔۔
کمرے میں سردی ہو رہی تھی اے سی کی وجہ سے۔۔
❣️❣️❣️
دروازہ کھلا تھا اور مسکراتا ہوا وہ اندر داخل ہوا تھا ۔۔
وہ سامنے بیڈ پہ ہلکا سا گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی۔۔
واسکٹ اتارتا وہ اس کے سامنے بیڈ پہ جا بیٹھا تھا ۔۔
اس کے گھونگھٹ کے اس پار سے ہلکا چہرہ نظر آرہا تھا ۔۔
وہ اسے کچھ دیر تک دیکھتا رہا ،، گود میں رکھے سفید ہاتھ جن پہ مہندی کی کمی تھی ۔
پھر اچانک سے تھوڑا آگے بڑھا اور اس کا گھونگھٹ پیچھے کو کر دیا ۔۔
کتنی دیر تک وہ اسے دیکھتا رہا ۔۔
اور وہ نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔۔
وہ نروس ہو رہی تھی ۔۔ اگرچہ وہ اس کے ساتھ پہلے سے رہ رہی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اس سے نروس ہو رہی تھی ۔
اچھی لگ رہی ہو ۔۔
اتنی اچھی کے میرا خود پہ کنٹرول ختم ہو رہا ہے ۔۔
وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے بولا تھا ۔
وہ جیب سے سرخ رنگ کا کیس نکال رہا تھا ،،
زرین کی آنکھیں کھبی اٹھتیں اور کبھی جھک جاتیں ۔۔۔
وہ قمیض شلوار کم پہنتا تھا ، اسی لیے آج وہ سفید قمیض شلوار میں بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔
وہ ابھی بھی اس کے ہاتھوں کو تھامے ہوئے تھا ۔۔
میں نے تمہیں اب تک بہت تکلیفیں دی ہیں ۔۔
میں نے تمہارے ساتھ ظلم کیا ۔۔
زبردستی تمہیں اپنے ساتھ رکھا ۔۔
وہ دن جب ہم پہلی دفعہ ملے تھے ۔
وہ ایک لمحے کو رکا تھا ۔۔
اس کے بائیں ہاتھ کی تیسیر انگلی میں وہ گہرے نیلے رنگ کے ہیرے والی انگوٹھی پہنا رہا تھا جس کے اردگرد سفید ننھے ہیرے جڑے تھے ۔۔
اس کے سفید مخروطی انگلیوں میں انگوٹھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی یا اس کی انگلیاں وہ یہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا ۔۔۔
انگوٹھی کی چمک آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔
زرین کتنے لمحوں تک انگوٹھی کو دیکھتی رہی۔۔
وہ انگوٹھی یقیناً بہت قیمتی تھی۔
تب میں ایک جانور تھا ۔۔
یا اس سے بھی بدتر ۔۔۔
شراب کے نشے میں دھت ہو کر ،، دوستوں کے ساتھ ناجانے کیا کرتا رہتا تھا ۔
اس رات جب تم مجھے ملیں ،،
آریان ۔۔
پلیز ،، جو ہوا اسے بھول جاتے ہیں ہم۔۔
میں بھی کوشش کرتی ہوں آپ بھی ۔۔۔
وہ دیکھ رہی تھی وہ یہ سب بتاتے کتنا شرمندہ نظر آرہا تھا ۔۔
نہیں اگر آج نہیں یہ سب میں نے کہا تو شاید کبھی نا کہہ سکوں ۔۔ مجھے پتا ہے یہ سننا تمہارے لیے بہت مشکل ہے لیکن زرین آج سے ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں ۔۔
اس لیے مجھے مت روکو ۔۔۔
وہ اب بھی اس کے ہاتھوں کو پکڑے ہوئے تھا۔۔
کمرے میں اے سی کی وجہ سے اچھی خاصی ٹھنڈک تھی لیکن وہ دیکھ سکتی تھی اس کے ماتھے پہ پسینے کی چند بوندیں۔۔
یہ سب ان دونوں کے لیے ہی مشکل تھا ۔۔
میرا بچپن ہر اس بچے کی طرح گزرا جو ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتا ہے ۔۔ میرے ماں باپ نے مجھے مہنگے سکول ۔۔اکیڈمی۔
ہاسٹل میں بھیجا ۔۔
جہاں میرے لیے ایک منٹ بھی خالی نہیں ہوتا تھا ۔۔
میں جب بھی گھر جاتا تو میرا دل کرتا کہ مجھے بھی اس طرح سے مام پیار کریں ، جس طرح میں بچوں کو دیکھتا تھا ۔۔
میں ڈیڈ کے ساتھ پکنک پہ جانا چاہتا تھا ۔۔
مام۔۔ ڈیڈ کے ساتھ سمندر پہ جانا چاہتا تھا ،۔ریت کا گھر بنانا چاہتا تھا ۔۔
لیکن میں جب بھی گھر آتا ۔۔۔
میرے ماں باپ یا تو مصروف ہوتے اس لیے گھر میں ہی نا ٹھہرتے یا پھر ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے ۔۔
اسی طرح میں بڑا ہو گیا ۔۔
اور صحیح غلط کا فرق بھول گیا ۔۔
وہ خاموش ہوا تھا۔۔ یا پھر اس کے ماضی کا درد اسے یاد آیا تھا ۔
وہ بغور اسے سن رہی تھی۔۔
پہلی بار وہ اتنا کھل کیے اپنے بارے میں بتا رہا تھا ۔۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس رات ۔۔۔۔
میں تب صرف ایک بھوکے مرد کی طرح تمہارا جسم حاصل کرنا چاہتا تھا ۔۔
ایک ایسا مرد جو شراب کے نشے میں دھت تھا ۔۔
مگر شاید تم نے اس طرح میری زندگی میں شامل ہونا تھا ۔۔
ورنہ ایک نشے میں دھت مرد کو روکنا آسان نہیں ہوتا ۔۔
مجھے نہیں پتا کہ وہ کونسی طاقت تھی جس نے مجھ سے نکاح کے وہ بول بلوائے۔۔۔ اور ہمارا رشتہ جائز بن گیا ۔۔
ورنہ ۔۔۔
وہ کچھ دیر رکا تھا۔۔
زرین کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔۔
وہ رات اس کی زندگی کی سب سے بری رات تھی شاید ۔
لیکن تم نے پتا نہیں کتنی دعائیں کیں تھیں ۔۔۔ جو قدرت تم پہ مہربان تھی۔۔
وہ طنزیہ ہنسا تھا ۔۔
پتا نہیں قدرت تم پہ مہربان تھی یا مجھ پہ مجھے یہ ۔۔
جو تم اچانک سے میری زندگی میں داخل ہوگئیں ۔۔۔
میں نے سنا ہے کہ نکاح عورت کے قدموں کو صرف اس کے شوہر تک قید کر دیتا ہے ۔۔ ایک زنجیر کی طرح ۔۔
لیکن اس نکاح نے میرے پیروں میں زنجیریں ڈال دیں۔۔
اس رات کے بعد تم نا چاہتے ہوئے بھی میرے دل و دماغ پہ چھائی رہتیںں تھیں۔۔۔
اس سے تنگ آکر میں اپنی پرانی گرلفرینڈ کی طرف لوٹ گیا۔۔
تمہیں بھلانے کی خاطر ۔۔
لیکن تمہارے علاہ مجھے کوئی دوسری لڑکی ،، کوئی عورت اچھی نہیں لگتی تھی ۔۔
میں نے بہت دفعہ کوشش کی اپنی پرانی زنگی میں لوٹنے کی اور تمہیں چھوڑنے کی ۔۔
لیکن مجھے لگا کہ شاید اب میں زندہ ہی نا رہ سکوں ۔۔
وہ پھر سے چند لمحوں کے لیے رکا تھا ۔۔
اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔۔
وہ اپنی آنکھوں میں آنسو لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔
کچھ دیر وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔۔
میں جب بھی آنکھیں بند کرتا تو تمہاری یہ آنکھیں میرے سامنے آجاتیں۔۔
پھر اس کے بعد میں کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا تھا۔
جس رات میں نے تم پہ ہاتھ اٹھایا ۔۔
اس رات میں اندر سے بہت ڈسٹرب تھا ۔۔
میں تمہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔۔
میں لڑکیوں کی زنجیریں اپنے قدموں میں نہیں باندھنے والا انسان تھا۔۔
میری زندگی کے سب سے برے دن تھے وہ۔۔
میرا دوست لا پتا تھا ۔۔
شک تھا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہو گا ۔
اور اس کے قتل کا الزام مجھ پہ تھا ۔۔
اور دل و دماغ میں ایک جنگ تھی ۔۔
تمہیں لے کر
لیکن اگلی صبح جب میں تمہیں لے کر مری گیا تو میں سوچ چکا تھا ۔
کہ تمہیں نہیں چھوڑوں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔۔
اور پھر سب سے مشکل تھا تمہارا بھروسہ جیتنا ۔۔
تمہاری محبت پانا۔۔
تمہیں حاصل کرنا ۔۔ تمہاری مرضی سے۔ تمہاری خوشی سے۔۔
تمہارا مجھ سے نفرت کرنا میرے دل کو بہت تکلیف دیتا تھا ۔۔
تمہارا مجھ پر بھروسہ نا کرنا مجھے ہر پل کسی تازیانے کی طرح لگتا تھا ۔
ایسا ہوتا ہے جب ہم کسی سے بے پناہ محبت کریں اور وہ ہمیں دیکھنا پسند نا کرے۔۔
اور پھر شاید میری کوئی نیکی کام آگئی ۔
میں نے تمہاری محبت اور بھروسہ حاصل کر لیا۔۔
اگرچہ یہ بہت مشکل تھا ۔۔
اس لیے میں چاہتا ہوں اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دو۔
اور میں پوری کوشش کروں گا تم ماضی کے وہ سیاہ دن بھول جاؤ۔۔
آریان کی انکھوں میں ہلکے سے آنسو چمکے تھے ۔۔
میں تو کب کا آپ کو معاف کر چکی ہوں۔۔
اب تو میں وہ سب یاد بھی نہیں کرنا چاہتی ۔۔
میں باقی کی زندگی آپ سے محبت کرتے ہوئے گزارنا چاہتی ہوں۔۔
وہ آریان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں سے لگا کر بولہ تھی ۔۔
سامنے بیٹھا شخص دل و جان سے قبول تھا اسے۔
وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔
اس کی طرف دیکھا تھا۔ ۔
وہ حسین لڑکی ،، اس کے دل میں رہتی تھی ۔۔
جو اس کی بیوی تھی۔ ۔ جو اسے وارث دینے جا رہی تھی۔۔
کیا دیکھ رہے ہیں ۔۔
کافی دیر وہ اسے دیکھتا رہا ۔۔۔تو اس نے پوچھ لیا ۔۔
اب تو نہیں بھاگو گی۔۔
مجھے پتا ہے تم مجھ سے دور بھاگنے کے لیے سو منصوبے بنا چکی تھی ۔۔
وہ شرارت سے مسکرایا تھا ۔۔
وہ اسے خاموش نظروں سے دیکھتی رہی چند لمحے
پھر آہستہ سے بولی۔۔
میں ڈر گئی تھی۔۔
وہ کچھ پل رکی تھی۔۔ آریان کے ہاتھ کو اپنے نرم۔سینے پہ دل کے مقام پہ رکھا تھا ۔۔
میں ڈر گئی تھی ۔۔ جب اپ نے مجھ سے بات نہیں کی۔
میں ڈر گئی تھی جب مجھے اغواہ کیا گیا ۔۔
اور تب جب مجھے لگا میری عزت محفوظ نہیں رہے گی ۔
مجھے لگا کے میں آپ کی امانت میں خیانت کر دوں گی۔
میں ڈر گئی تھی کہ شاید میں ہمارا بچہ کھو دوں۔۔۔
آپ کو گولی لگتی تو
اس سے کچھ بولا نہیں گیا تھا آواز رندھ گئی تھی ۔
آریان نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا ۔۔
وہ اس کے سینے پہ سر رکھے رو دی تھی ۔
آپ کو ہوش نہیں آرہا تھا تو مجھے لگا کہیں میں آپ کو ہی کھو نا دوں۔۔
میں تمہیں چھوڑ کے کیسے کہیں جا سکا ہوں ۔
مجھے معاف کر دو میں نے تمہیں اتنا زیادہ تنگ کیا ۔۔
وہ اسے گلے سے لگائے اپنے لبوں سے اس کے چہرے کو چوم رہا تھا ۔۔
زرین رونا بند کر چکی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں کھو رہے تھے ۔۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا اس کی جیولری ایک ایک کر کے اتار رہا تھا ۔۔۔
جبکہ زرین اس کی قربت میں خود کو سونپ چکی تھی ، وہ آنکھیں بند کر چکی تھی ۔ اس کا سب کچھ اب سے وہی شخص تھا ۔۔۔
وہ جو خود کو روکے ہوئے تھا اب بہک گیا تھا ۔۔
اور اس کی جیولری اتارتا اس پہ جھک گیا تھا۔ اس کے لبوں کو احتیاط سے نرمی سے چوم رہا تھا ۔۔ وہ بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی
وہ اس کے بالوں کو آزاد کر رہا تھا ۔۔ آور دوسرے ہاتھ سے وہ کمرے میں موجود لائٹ کو بند کر گیا تھا ۔۔۔ اب صرف ایک لیمپ چل رہا تھا جس کی ہلکی روشنی ان کو ایک دوسرے کے اور قریب کر رہی تھی ۔۔۔
وہ اس کے لبوں کو آزاد کرتا رکا تھا ۔
اور اپنی قمیض اتارتا سائیڈ پہ رکھ رہا تھا ۔۔
وہ اس کی گردن پہ اپنے لبوں سے نشان چھوڑ رہا تھا ۔۔
زرین کے ہاتھ اس کی کمر پہ اور اس کے بالوں میں چل رہے تھے ۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔۔
شاید ایک چھپی ہوئی اجازت تھی آگے بڑھنے کی ۔۔
وہ اسے الٹا لیٹاٹا اس کی گردن سے بال ہٹاٹا اپنے گرم لبوں کو رکھ گیا۔
زرین کی جان نکل گئی تھی ۔۔ ابھی تو اس نے کچھ کیا بھی نہیں تھا ۔۔
وہ اپنے لبوں سے اس کی کمر پر چلتا ،، دانتوں سے اس کی مہرون میکسی کی زپ کھول رہا تھا ۔۔ اندر سے دودھیا بدن اس کے سامنے تھا۔
اس کی برا کے سٹرپ نظر آرہے تھے ۔۔ وہ اس کو اس بھاری بھرکم میکسی سے آزاد کر گیا تھا ۔۔
اب وہ صرف ایک برا میں اور ٹراؤزر میں تھی۔۔
اس کے نرم ابھار قید میں تھے ۔۔ جنہیں وہ آزاد کرنے کے لیے بےچین تھا ۔۔
کچھ لمحے وہ اسے گہرے سانس لیتا دیکھتا رہا ۔۔
پتا نہیں وہ اتنی خوبصورت کیوں لگتی تھی اسے کے وہ اسے دیکھتا ہی پاگل ہو جاتا تھا ۔۔۔
زرین نے اسے خود پہ محسوس نا کر کے آنکھیں کھولیں تو وہ اس کے سامنے بیٹھا مخمور آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
زرین اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈال کر اسے اپنے اوپر گرا گئی ۔۔ اور وہ اس کے جسم کی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا ۔۔
جبکہ وہ اس کے چہرے کو اپنے نازک لبوں سے چوم رہی تھی ۔۔
چہرے سے ہوتی وہ اس کی گردن پہ موجود اس ہڈی پہ اپنے لب رکھ گئی جو اس کے بولنے پہ اسے اچبی لگتی تھی ۔۔۔
آریان اس سے زیادہ کنٹرول نہیں کر سکتا تھا ۔۔ وہ اس کا ٹراؤزر بھی اتار گیا۔ اب وہ صرف دو لباس میں تھی ۔۔
وہ اس کی آنکھوں سے ہوتا اس کے نرم سینے پہ جا پہنچا ۔۔
اس کے نرم ابھار جو قید تھے انہیں اپنے لبوں سے چوم رہا تھا ۔۔
اس کا دودھیا بدن اس کی کمزوری تھا ۔۔
وہ ایک بار پھر اسے الٹا کرتا اس کے ابھاروں کو آزاد کر گیا تھا ۔۔
ایک حسیں منظر اس کے سامنے تھا ۔
اس کے سفید نرم ابھاروں پہ نظر آتیں خون کی وہ باریک سی وینز جو کے آگے جا کے ختم ہو جاتیں تھیں ۔ اس کے ابھاروں پہ لگے وہ گلابی سے نشان ۔۔۔ اور وہ گہرے سانس لیتی اسے پاگل کر رہی تھی ۔
وہ اس پہ جھک گیا تھا ۔۔ نرمی سے وہ اس کے گلابی نشان کو لبوں میں لے گیا ۔۔
وہ ڈر رہا تھا کہیں بچے کو کچھ نا ہو جائے اس لیے نرمی سے احتیاط سے وہ اسے چھو رہا تھا ۔۔ کسی کانچ کی گڑیا کی طرح وہ اس کا خیال رکھ رہا تھا ۔۔
آج اس کے ہر عمل میں نرمی تھی ۔ احتیاط تھی۔۔
وہ اس کی متاع جان تھی ۔۔
وہ خود کو لباس سے آزاد کرتا اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا تھا ۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا شاید اجازت لے رہا تھا ۔۔
جبکہ زرین بن پانی کی مچھلی کے جیسے تڑپ رہی تھی ۔۔
وہ اسے خود پہ کھینچ رہی تھی ۔۔
وہ اسے خود میں اتارنے کے لیے بیتاب تھی۔۔
اور پھر آہستہ سے وہ خود کو اس میں اتار گیا ، ایک سکون کی سانس زرین کے لبوں سے خارج ہوئی ۔۔
کہاں وہ اس کی قربت سے نفرت کرتی تھی اور آج وہ خود اس کی قربت کے لیے پاگل ہو۔رہی تھی۔۔
وہ آہستہ آہستہ سے اس اندر تک جا رہا تھا ۔۔
دونوں کے جسم مل گئے تھے ۔۔ ان کی زندگی ان کی محبت مکمل تھی۔۔
وہ رات گہری ہونے کے ساتھ ایک دوسرے سے مزید نزدیک ہو رہے تھے ۔۔
بارش تیز ہو گئی تھی ۔۔ گرمی کا زور ٹوٹ گیا تھا ۔۔ لیکن کمرے میں وہ دونوں وجود پسینے سے تر تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
اگلی صبح وہ اس کی بانہوں میں قید تھی جب اس کی آنکھ کھلی ۔ وہ دونوں لباس سے آزاد تھے ۔۔
وہ آہستہ سے اٹھی تھی ۔۔ اس جان سے عزیر شخص کے ماتھے پہ اپنے لب احتیاط سے رکھتی وہ چادر اپنے گرد لپیٹیتی کپڑے لیتی فریش ہونے چلی گئی ۔۔
وہ واپس آئی تو وہ اٹھ چکا تھا ۔۔۔
اسے اپنی بانہوں میں بھرتا اس کے بالوں کی خوشبو اپنے اندر اتارتا ایک بار پھر ںہک رہا تھا ۔۔۔
وہ جلدی سے پیچھے ہٹی تھی ۔۔
آپ کے جا کےفریش ہو جائیں ۔۔
دس بج رہےہیں سب کیا سوچیں گے۔۔
یہی سوچیں گے کہ ہم پیار کررہے ہیں ۔۔
وہ اس لبوں کو ایک انگلی سے چھوتا اس کے سینے پہ آکے رکا تھا ۔۔۔
تم ہر رات مجھے پہلے سے زیادہ حسین لگتی ہو۔۔
جتنی دفعہ تمہارے نزدیک آتا ہوں اتنی دفعہ لگتا ہے پہلی بار تمہیں چھو رہا ہوں ۔۔
وہ اس کے اور اپنے عکس کو مرر میں دیکھتا کہہ رہا تھا ۔۔
تبھی دروازے پہ دستک ہوئی تھی ۔۔۔
آریان ۔۔۔
ناشتہ کے لیے آجاؤ ۔۔
آج تو سب ایک ساتھ نوشتہ کر لیں ۔۔۔
ٹھیک ہے آرہے ہیں ۔۔۔
وہ مسز زارا کو جواب دیتا بولتا واش روم کی طرف بڑھ گیا تھا اور وہ تیار ہونے لگی تھی ۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے تھے ۔۔
زرین گلابی رنگ کے ایمبرائیڈری ڈریس میں تھی ۔۔ کندھوں پر بال کر رکھے تھے ۔۔ دوبٹہ کو اچھی طرح سامنے پھیلا رکھا تھا ۔۔
رات کے پیار ہے گہرے نشان چھپ چکے تھے ۔۔
جبکہ آریان اپنے پرانے سٹائل میں ہی تھا ۔۔
ٹی شرٹ اور جینز میں وہ ہمیشہ کی طرح اچھا لگ رہا تھا
ایک خوشگوار ماحول میں ناشتہ ہو رہا تھا ۔۔
ملازم ایک طرف کھڑے کسی چیز کی ضرورت پہ مسز زارا سکندر کے اشارے کے منتظر ۔۔
میں سوچ رہی ہوں کہ ہم ایک گرینڈ ریسیپشن کر لیتے ہیں ۔۔
شادی تو ہم کر نہیں سکے ۔۔
نا میں کوئی تیاریاں کر سکی۔
مسز زارا کانٹے سے فرائی انڈا کھاتی بولیں تھیں ۔۔ وہ اس وقت مکمل تیار تھیں ، سیاہ سلیو لیس ٹاپ پہنے ، سنہری بالوں کا جوڑا بنائے ہوئے تھیں ۔۔ کانوں میں موٹے موٹے ٹاپس ان کے چہرے کو حیسن بنا رہے تھے ۔۔
ہاں ٹھیک ہے ۔۔
میرے بھی دوست ہیں ، جس جس کو پتا چلے گا وہ اعتراض کرے گا ۔۔
ایک ریسیپشن پارٹی رکھ لیتے ہیں ۔ کیوں آریان تمہارا کیا خیال ہے
سکندر صاحب بھی بولے تھے ۔
وہ آریان کے جواب کا انتظار کر رہے تھے ۔۔
جو اس طرح ناشتہ کر رہا تھا جیسے آخری بار سینڈوچ کھانے کا ملا ہو۔۔
آرام سے کھا لو ۔۔ یہاں سے کچھ بھاگ کر نہیں جائے گا۔
سب چیزیں بے جان ہیں ۔۔
تمہاری بیوی کی سوچتی ہو گی تم ایسے کھاتے ہو ۔۔
مسز زارا ناگواری سے بولیں تھیں اور ایک نظر ملازمین پہ ڈالی تھیں وہ یہ سب تماشہ دیکھ رہے تھے ۔۔
ہمارے پاس ریسیپشن کے لیے ٹائم نہیں ہے دو دن بعد ہم آسٹریلیا رہے ہیں ۔۔
میری ایک بزنس میٹنگ ہے اور اس کے بعد ۔۔۔
اس کی بات اُدھوری رہ گئی کیونکہ مسز زارا بھول پڑیں ۔۔
تم لوگ اپنا ہنی مون کے لیے آسٹریلیا جا رہے ہو ۔۔
نہیں آسٹریلیا صرف میں میٹنگ کے لیے جا رہا ہوں اس کے بعد ہم ورلڈ ٹور کے لیے جائیں گے شاید ایک مہینہ یا اس سے زیادہ ۔۔
وہ اب نیپکین سے منہ صاف کر رہا تھا ۔۔
ورلڈ ٹور ۔۔
سکندر صاحب حیرانی سے بولے تھے ۔۔
جی ،، ورلڈ ٹور
موبائل پہ بیپ ہوئی تھی ، عثمان کا میسج تھا ۔
اسے عثمان سے ملنے جانا تھا وہ اور ولید فارم ہاؤس آرہے تھے ۔۔ وہ وہاں سے اٹھ گیا تھا ۔۔
زرین کو مسز زارا نے روک لیا تھا ۔۔ وہ اس کو لے کر گھر دکھا رہی تھیں ۔۔ اور پھر اسے لے کر پارلر چلی گئیں تھیں ،،
ان کی بہو کو پارٹی میں سب حسین لگنا چاہیے تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ منظر ایک بیڈروم کا تھا ۔۔
کمرے میں ملگجہ اندھیرہ تھا۔
پردے گرے ہوئے تھے ۔۔
دو وجود نیم برہنہ انداز میں ایک دوسرے سے چپکے سو رہے تھے ۔
ان کی نیند میں خلل فون کال سے ہوا ۔۔
بمشکل آنکھیں کھولتا ولید اٹھا تھا
اور فون کان پہ لگایا تھا ۔۔
ہوں۔۔
بمقابل کی بات سنی تھی ۔۔۔
ٹھیک ہے آجاؤں گا۔۔
ہوں ،، اچھا ابھی آتا ہوں۔۔
یقیناً دوسری طرف والا انسان سمجھ گیا تھا وہ سویا اٹھا تھا
فون بند ہو چکا تھا ۔۔
کون تھا ۔۔
آئزہ بھی اٹھ چکی تھی ،،
عثمان تھا ،،
کوئی ضروری بات ہے اس لیے بلا رہا ہے ،،
اتنی صبح ۔۔۔
آئزہ کہتی ولی کی گود سے لیٹ گئی تھی ۔۔
ولید جو کہ صرف شارٹس پہنے ہوئے تھا ۔۔
ولید نے اس کی طرف دیکھا ۔۔
سیاہ نائٹی اس کے صحت مند جسم کو چھپانے میں ناکام تھی ۔۔
نائٹی بمشکل اس کے کولہوں سے نیچے آرہی تھی ۔۔
اس کا سینہ نائٹی سے باہر نظر آرہا تھا ۔۔
ولی ۔۔
ہوں ۔
مت جاؤ نا۔۔
وہ ولی کی گردن میں ہاتھ ڈالے کہہ رہی تھی ۔۔
دل تو نہیں چاہ رہا لیکن جانا پڑے گا ۔۔
وہ اس کے لبوں کو چومتا واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔
کل رات وہ آریان کے نکاح سے واپس آئے تھے۔۔
کل کی رات بہت حسین تھی ۔۔
آئزہ یاد کرتی آنکھیں بند کر گئی تھی ۔۔
اس کی انتہا کے خوبصورت منظر یاد کر کے ہی وہ پرسکون ہو رہی تھی ۔۔
اتنے عرصے بعد اس کی زندگی نارمل ہوئی تھی ۔۔
ورنہ وہ تو بھول ہی گئی تھی جینا کسے کہتے ہیں ۔۔
حاشر کے بہکاوے میں آکر وہ اپنا سب کچھ گنوانے جا رہی تھی ۔۔
لیکن خدا کا شکر تھا وہ اپنی زندگی ، اپنی محبت کی طرف لوٹ گئی تھی۔
سامنے تیار ہوتے ولید کو دیکھ کر وہ سوچ رہی تھی۔
گھر کب آؤ گے ولی۔۔
وہ بیڈ سے اترتی اس کے پاس چلی گئی تھی ۔۔
یہ تو وہاں جا کے ہی پتا چلے گا۔
وہ سامنے مرر میں دیکھتا بولا تھا ۔۔
لاؤ میں لگاتی ہوں ۔
وہ شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا ۔۔
جب وہ اس کے آگے آتی بولی تھی ۔۔
وہ دونوں اپنی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے ۔۔
ان دونوں کا ساتھ ہی ایک دوسرے کے لیے سب کچھ تھا ۔۔
وہ اسے پیار کرتا چلا گیا تھا ۔
اور وہ دروازہ بند کرتی مسکراتی ہوئی اندر کی جانب چل دی۔۔
اندر شانزے ناشتہ بنا چکی تھی ۔۔ کل رات وہ یہی ٹھہری تھی ۔۔ وہ جانتی تھی آئزہ جتنی سست ہے وہ ناشتہ بنانے کہاں اٹھنے والی تھی ۔۔
عثمان کے کہنے پر وہ ان کے گھر ٹھہر گئی تھی ۔۔
تھوڑی دیر تک وہ اسے لینے آنے والا تھا ۔۔
پھر وہ ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے جانے والے تھے ۔
اب اس کی زندگی میں اس کیا بچہ بھی تھا ۔
وہ ناشتہ کرنے لگی تھی۔۔۔ اس کی چھوٹی سی بہن کب بڑی ہوئی اور کب اپنی الگ دنیا بسانے کے قابل ہو گئ پتا ہی نہیں چلا تھا ۔۔
وہ خوش تھی اسے ولید کے ساتھ دیکھ کر ۔
وہ دونوں ایک محبت بھری زندگی گزار رہے تھے ۔۔
وہ پرسکون ہو کر ناشتہ کرنے لگی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کل رات سے گھر نہیں گیا تھا ۔۔
حاشر کو سرد خانے منتقل کر دیا تھا۔
وہاب ہمدانی کو کچھ دیر پہلے اس کے بیٹے سے ملانے پولیس وین میں لے جایا گیا تھا ۔
دلاور کہاں غائب تھا ابھی تک پتا نہیں چل سکا تھا ۔۔
ابھی وہ آریان کے فارم ہاؤس پہ پہنچا تھا۔۔
یہاں کے گارڈز اسے شروع سے جانتے تھے ۔۔
اس لیے وہ آریان کی غیر موجودگی میں بھی یہاں آجایا کرتا تھا ۔۔
سلام صاحب ۔۔۔
اکمل جو یہاں کھانا بناتا تھا ۔۔
وہ روز صبح اور شام کو ہی صرف یہاں آتا تھا ۔۔
میرے لیے ناشتہ بنا دیں ،،
وہ سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیتا ناشتہ کا بولتا اندر چلا گیا تھا ۔
کل رات آریان کا نکاح تھا ۔۔ وہ لڑکی جس پہ ان سب کی نیت خراب تھی۔۔ وہ آریان کی بیوی تھی۔۔
اور حیرت یہ تھی کہ اب کبھی ایسا خیال بھی دل میں نا آیا تھا ۔۔
اسے شانزے کو لینے جانا تھا ، وہ کل سے ہی اس سے سوال پہ سوال کر رہی تھی ۔۔
ابھی وہ اندر بیٹھا ناشتہ ہی کر رہا تھا کہ آریان بھی اندر داخل ہو گیا ۔
وہ اس کے گلے ملتا اسے مبارک باد دے رہا تھا ۔۔
آریان کے چہرے پہ خوشی صاف نظر آرہی تھی ۔۔
وہ جانتا تھا جو خبر وہ اسے سنائے گا اس کے بعد شاید وہ تھوڑا اپ سیٹ ہو جائے ۔۔
کیا بات تھی جو ایسے ایمر جنسی میں بلایا تم نے ۔۔
تمہارا شرمیلا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا لیکن یہاں تو شرم کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے ۔۔
وہ ہنستا ہوا بولا تھا ۔۔
تمہیں دیکھ کر کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ تم ساری رات سوئے ہی نہیں ۔ خیریت تو ہے شادی تو میری تھی لیکن جاگتے تم رہے ہو ساری رات ۔۔۔
آریان کافی فریش فیل کر رہا تھا ۔۔
ہونہہ ۔
کچھ ایسا ہی سمجھ لو ۔۔
ہاں۔۔
کل رات تم کہاں چلے گئے تھے نکاح بھی پورا اٹینڈ نہیں کیا تم نے۔۔
آریان کو اچانک یاد آیا تھا
بتاتا ہوں۔۔
کیوں کچھ ہوا ہے کیا ۔۔
سب کچھ ٹھیک تو ہےنا ۔۔
اب کے آریان پریشان ہوا تھا ۔۔
کیا ہو رہا ہے ،،
تو دلہا صاحب بھی موجود ہیں یہاں۔۔
ولید اندر داخل ہوا تھا ۔۔
ہاں کیا حال چال ہیں ۔
آریان اس سے پوچھتا گلے ملا تھا ۔۔ وہ بات درمیان میں رہ گئی تھی ۔۔
اکمل بابا ۔۔۔
ولید اونچی آواز میں چیخا تھا ۔۔
میرے لیے بھی عثمان صاحب والا ناشتہ لے آئیں ۔۔
ولید انہیں کہتا ریموٹ اٹھا کر ایل ای ڈی آن کر چکا تھا ۔۔
کیا بات ہے تم لوگوں کو کیا تم دونوں کی بیویوں نے گھروں سے نکال دیا ہے جو یہاں پہ آکے ناشتے کر رہے ہو۔۔
آریان ان دونوں کو دیکھتا حیران ہو رہا تھا ۔۔
ولید ایل ای ڈی پہ ریسلنگ لگا کر دیکھ رہا تھا ۔۔
ولی یار بند کر اسے ۔
عثمان اسے کہہ رہا تھا ۔۔
وہ اتنا سیریس ہو کر کہہ رہا تھا کہ ولید جلدی سے آف کر گیا تھا ۔۔۔
آریان بھی متوجہ ہو گیا تھا ۔۔
کل رات حاشر کی موت ہو گئی ہے ۔۔
اس کے الفاظ تھے یا کیا کتنے ہی لمحے پورے کمرے میں سناٹا چھا گیا تھا ۔۔
کیسے ۔۔
کچھ لمحوں بعد آریان کی آواز گونجی تھی ۔۔
میں نے قتل کیا ہے اسے ۔۔
ہاسپٹل کی چھت پر ایک بچے کو لے کر چڑھ گیا تھا ۔
مجبوراً مجھے گولی چلانی پڑی۔۔
چھت سے گر کر مر گیا ہے ۔
ابھی وہ سرد خانے میں ہے اگر تم لوگ دیکھنا ۔۔۔
عثمان آہستہ آہستہ سے سب بتا رہا تھا
ایک بار پھر وہ ہی سناٹا چھا گیا تھا ۔۔
وہ مرتے ہوئے بھی کمینے پن سے باز نہیں آیا ۔۔
ایک بار پھر آریان ہی بولا تھا۔ ۔
مجھے اس کی موت پہ کوئی افسوس نہیں ہے ۔۔ اور نا ہی مجھے اس کی شکل دیکھنی ہے۔۔
جس لمحے اس نے میری پیٹھ میں خنجر کھوبنا چاہا تھا اس وقت سے ہی میں اس سے سارے رشتے ختم کر چکا ہوں ۔۔
اگر عثمان تمہیں اس کی موت کا افسوس ہے
اور جیسا کہ مجھے اب سمجھ آرہا ہے کہ تم ساری رات سوگ مناتے رہے ہو ۔۔
میں تمہیں بتا دوں میرے بعد اس کا اگلا شکار تم ہی ہوتے
اس لیے اچھا ہوا وہ مر گیا ،، ہم سب کے زندہ رہنے کے لیے اس کا مرنا ضروری تھا ۔۔
خس کم جہاں پاک
آریان تلخی سے کہہ رہا تھا ۔۔۔
لیکن عثمان جانتا تھا کہ اندر کہیں تھوڑا سا افسوس تو اسے بھی ہو گا ۔۔
آریان صحیح کہہ رہا ہے ۔۔
اگر وہ نا مرتا تو ہم میں سے کون زندہ ہوتا آج یہ بتانا مشکل ہے ۔۔
وہ مجھے ہم چاروں میں سے ختم کرنے چلا تھا ۔۔
لیکن آج وہ کہاں ہے۔
جو گڑھا اس نے ہمارے لیے کھودا تھا اس میں آج وہی ہے ۔۔
مجھے بھی اس کی موت کا کوئی افسوس نہیں
ولید بھی کہہ رہا تھا ۔۔ وہ دونوں صحیح کہہ رہے تھے ،،
آج اگر حاشر آزاد ہوتا تو ان تینوں میں سے کون کیسا ہوتا نہیں پتا تھا ۔۔۔
حاشر کو اس لالچ لے ڈوبا ہے ۔۔
وہ اپنی ذات کے لالچ میں سب بھول گیا اور یہ تو ہونا ہی تھا ۔۔
عثمان بولا تھا ۔۔۔
ہاں۔۔۔
لیکن اب ہماری زندگی سکون سے گزرے گی سارے ڈر ختم ہو گئے اب کھل کے جی سکتے ہیں ہم ہمارے گھر والے
خیر میں تم لوگوں کو یہ بتانے آیا تھا کہ پرسوں صبح چار بجے میری آسٹریلیا کی فلائٹ ہے۔۔
اور کل ریسیپشن پارٹی ہے۔۔۔
آریان انہیں انفارم کر رہا تھا ۔۔۔۔
تو ہنی مون پہ جا رہا ہے ۔۔
ولید خوشی سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔
ہاں ایک مہینہ کا ورلڈ ٹور کرنے والے ہیں ہم۔۔
دل چاہا تو ایک مہینہ میں واپس آجائیں گے ورنہ نہیں۔۔
ٹھیک ہے میرے بھائی زندگی انجوائے کر ۔۔
عثمان اس کی ٹانگ پہ ہاتھ مارتا بولا تھا۔۔۔
جا راج جی لے اپنی زندگی ۔
ولید آریان کے بال خراب کرتا ڈائیلاگ خراب کر رہا تھا ۔۔
یہ دیکھ میرے ہاتھ۔ ۔
بخش دے،۔ اب تو بخش دے ۔۔
تجھے کتنی دفعہ بولا نا تو محاورے بولا کر نا ڈائیلاگ اور نا شعر ۔۔
"جا ثمرین جی لے اپنی زندگی "۔
یہ ہے اصلی ڈائیلاگ ۔۔
عثمان باقاعدہ ہاتھ جوڑتا بولا تھا
پتا ہے مجھے ہمارے پاس کونسا ثمرین ہے
ہمارے پاس تو راج ہے تو ہم راج کو ہی کہیں گے کہ جی لے اپنی زندگی ۔۔
ولید ایک اور بھونڈی تھیوری لایا تھا ۔
آریان ہنس رہا تھا ۔
عثمان بھی کچھ دیر ولید کو دیکھتا رہا پھر مسکرا دیا۔
کچھ چیزیں کبھی نہیں بدل سکتی تھیں۔۔
وہ تینوں اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ رہے تھے ۔۔
پچھلی زندگی کو وہ بہت پیچھے چھوڑ چکے تھے ۔۔
وہ ایک دوسرے سے گلے ملتے ایک دوسرے کی خوشیوں اور کامیابیوں کے لیے سچے دل سے دعا گو تھے ۔۔
وہ تینوں باکل نارمل نظر آرہے تھے ، جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔
جیسے کہ وہ ہمیشہ سے تین دوست ہی ہوں ۔
لیکن اندر کہیں دل میں ایک افسوس بھی تھا ۔۔۔
کاش ۔۔۔۔
سب کچھ اس طرح نا ہوا ہوتا ۔۔
تو آج حالات مختلف ہوتے ۔۔
لیکن کچھ کاش ہمارے دلوں میں ہی رہ جاتے ہیں ۔
یہ ہی زندگی کا اصول ہے ۔۔
اور اسی کے ساتھ سب جیتے ہیں ۔۔
ان تینوں کی منزل الگ تھی راستے الگ تھے ۔۔۔
لیکن دل ایک ہی تھے ۔۔
وہ اب ایک دوسرے کو کھونا نہیں چاہتے تھے ۔
بہت مشکل سے یہ دوستی بچی تھی ۔۔
وہ تینوں اپنی اپنی زندگیوں کی طرف لوٹ گئے تھے ۔۔
جہاں ان کی محبت ان کا انتظار کر رہی تھیں۔۔
مشکلات نے انہیں زندگی کی حقیقت سے آشنا کر وایا دیا تھا ۔۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Komentar