Hum Nasheen Most Bold Urdu Novel Episode 19 novel dot com

 ہم نشین

موسٹ بولڈ اردو ناول
از قلم عنائزہ بتول

Hum Nasheen Novel Dot Com Bold Urdu Novel

قسط نمبر 19

🥀❣️❣️🥀🥀


موجودہ دن ،،، 


آدھی رات کا وقت تھا ،، کالونی میں ایک ہی طرز کے مختلف بنگلہ تھے ،، کھلی کھلی سڑکیں اور سامنے پارک جس میں اس پہر کوئی نظر نہیں آتا تھا ،،

ہر بنگلہ کے باہر گارڈ موجود تھا ،،

لیکن زیادہ تر گارڈز اونگھ رہے تھے ،، وی یہاں ارتضیٰ آفندی کا بنگلہ ڈھونڈ رہا تھا ،، 

وہ کالونی سے کافی پیچھے اپنی گاڑی پارک کر آیا تھا ،، رات کے اس پہر اتنی بے چینی تھی کہ وہ اس دشمن جان کو دیکھنے کے لیے یہاں موجود تھا ،،

💕💕💕


اسے یاد تھا دو دن پہلے جب وہ اس کے گھر تھی ، تب کس طرح وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی ،، 




دو دن پہلے کی وہ شام 

سکندر ولا ء 


🍁🍁🍁


 ارتضی میرے خیال سے اب ہم جلد از جلد بچوں کا ولیمہ کر لیتے ہیں ،، اب تو سب کچھ بالکل ٹھیک ہے ،،

سکندر صاحب ارتضی آفندی سے کہہ رہے تھے وہ اب زرین کا باپ تھے تو اسی سے بات کرنی تھی ،،


ہاں ،، بالکل آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مجھے بھی آریان بہت عزیز ہے میرے ہاتھوں میں بڑا ہوا ہے ،، لیکن پھر بھی اس ہفتے کو زیادہ بہتر نہیں ہے ،، ابھی ابھی تو مجھے میری بیٹی ملی ہے میں آپ کو دو سے تین دن میں بتا دوں گا ،،


کیوں بیٹا آپ کیا چاہتی ہیں ،، 

وہ زرین کے بالوں پہ ہالوں پہ ہاتھ پھیرتے کہہ تھے ،،


وہ کیا کہتی زندگی کے اتنے سال اس نے بنا کسی سہارے کے گزارے تھے کہ اب اچانک سے زندگی اسے ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کر چکی تھی ،، 

لیکن سامنے بیٹھا شخص اس کے باپ تھا ، بزدل تو وہ ہمیشہ سے ہی تھی ،، وہ ایک نظر آریان کی طرف ڈالے ہاں سر ہلا گئی تھی ،، 

اور آریان کے ہونٹوں پہ ایک تلخ مسکراہٹ آگئی تھی ،، 

جبکہ ارتضیٰ آفندی اس کا ماتھا چوم رہے تھے ،، 


سکندر صاحب چپ کر گئے تھے اب وہ کیا کہتے ان کی کوشش تھی کہ ولیمہ ہفتے کو ہی ہو لیکن ارتضیٰ آفندی نے سوچنے کا وقت لے لیا تھا ،، 

وہ آریان کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کو کہہ رہے تھے ،، یہ بہت نازک معاملہ تھا ،،


اچھا چلیں بہت باتیں ہو گئیں ، اب کھانا لگاتی ہوں کھانا کھا لیں سب ،، 

آج تو مٹھائی منگواتی ہوں اتنی خوشی کا دن ہے ،، 


مسز زارا کچن میں چلی گئیں تھیں ،، جبکہ آریان سے ارتضیٰ آفندی کو دیکھنا ہی مشکل لگ رہا تھا اس لیے وہ لان میں چلا گیا تھا ،،، 

🥀🥀🥀


اسے ارتضیٰ آفندی کے گھر کا ایڈریس تو معلوم تھا لیکن وہ پہلی بار ان کے گھر جا رہا تھا وہ بھی اس طرح سے چوروں کی طرح ،،،


تبھی وہ اپنی مطلوبہ جگہ پہنچ گیا تھا ،، باہر بورڈ بھی لگا ہوا تھا ،،" ارتضیٰ آفندی "


واہ ارتضیٰ آفندی پتا نہیں کس کس کو مار کے لوٹ کے تم نے یہ شاندار گھر بنایا ہو گا،، کاش کہ میں تمہاری اصلیت سب کے سامنے لا سکوں ،،


باہر گارڈ بیٹھا تھا ،، اور وہ جاگ بھی رہا تھا ،، 

اف کیا مصیبت ہے " 

وہ اسے دیکھ کر سخت بد مزا ہوا تھا ساری کولونی کے گارڈز سو رہے تھے اور یہ ایک ابھی تک جاگ رہا تھا ،، جاہل کہیں کا ،،


وہ بیک سائیڈ پہ کیمرے سے بچتا چلا گیا تھا ،، سر اٹھا کے اوپر دیکھا تھا ،، اوپر کے دونوں کمروں کی لائٹس آن تھیں ،،

ان میں سے ایک روم میں زرین ہو گی ،،


وہ پائپ کو دیکھتا اس کے ذریعے اوپر جانے لگا تھا ،، 

دو دفعہ تو وہ گرنے لگا تھا ،، اگر وہ گر جاتا تو شاید وہ کبھی کھڑا نا ہو پاتا ،، 


وہ بامشکل پائپ سے ہوتا بالکونی میں اترا تھا ،، وہ دل میں دعا کر رہا تھا کہ یہی کمرہ زرین کا ہو ،، لیکن یہ بھی کہاں ممکن تھا ،، ڈرتے ڈرتے اندر دیکھا تو سامنے ہی ارتضیٰ آفندی کتاب پڑھتے نظر آرہے تھے،، 


مطلب دوسرا کمرہ زرین کا ہی تھا ،، وہ ننگے پاؤں احتیاط سے ہوتا بالکونی کو پھلانگتا کوریڈور میں گیا تھا ،، بنگلہ صرف باہر سے نہیں اندر سے بھی اپنے قیمتی ہونے کا بتا رہا تھا ،


✨✨✨


ڈیکوریشن کے لیے جگہ جگہ قیمتی امپورٹڈ چیزیں نظر آرہی تھیں۔ ، اور پینٹنگز جو دیواروں پہ موجود تھیں وہ کسی آرٹسٹ کا شاہکار لگ رہی تھیں ،،


کمرے کا ہینڈل گماتا وہ ہلکے سے سر اندر کرتا دیکھنے لگا تھا ،،لیکن اگلے ہی لمحے وہ اندر تھا کیونکہ وہ دشمن جان کمبل میں لپٹی سو رہی تھی ،، اے سی کی وجہ سے کمرہ ٹھنڈا تھا ،، 

وہ احتیاط سے کمرہ لاک کرتا ،، اس کے بستر کے پاس آکھڑا ہوا 

وہ وہی مہرون رنگ کا نائٹ گاؤن پہنے ہوئے تھی جو اس نے اسے خرید کر دیا تھا ،،

❤️❤️❤️


کھلے بال سرہانے پر کسی آبشار کی طرح پڑے نظر آرہے تھے ،، اسے کے چہرے پہ کچھ آوارہ لَٹِیں اس کے لبوں کو چوم رہی تھیں،، 

وہی ملائم ،، شفاف جلد ،، 

بھلا دو دن میں کوئی کتنا بھی بدل سکتا تھا ،، یہ تو وہ تھا جسے دو دن بھی دو سال لگ رہے تھے ،، 


وہ آہستہ سے کمبل ہٹاتا اس کے پاس لیٹ گیا تھا ،، 

اپنا چہرہ اس کی گردن میں چھپا کے وہ اس کے جسم کی خوشبو اپنے اندر اتار رہا تھا ،، کتنی گہری نیند سو رہی تھی وہ ،، 

کتنے ہی پل وہ آنکھیں بند کیے اس اپنی بانہوں میں لیے چہرہ اس کی گردن میں چھپائے لیٹا رہا ،، 

وہ کنواں تھی ،، اور وہ کنارے پہ کھڑا پیاسا ،،


ہلکے سے وہ اس پہ اپنا وزن ڈالتا اس کے ارد گرد اپنے مظبوط بازو جماتا اس کے گداز لبوں کو نرمی سے اپنے لبوں میں لے گیا ،، لیکن اس کا لمس ملتے ہی اس کے اندر کا جنونی شخص جاگ اٹھا تھا ،، 

وہ اس کے لبوں کو اس طرح چوم رہا تھا جیسے آج ان کا سارا رس ہی پی جائے گا ،،  


😘😘😘


دوسری طرف زرین کو اپنے اوپر کسی کا دباؤ محسوس ہوا ،، سانس بھی نہیں آرہا تھا ،،  

مانوس سی خوشبو اس کے دماغ کو ماؤف کر رہی تھی ،، 


وہ اپنے ہاتھ اس کے سینے پہ مارتی اسے دور کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی ،، اور وہ تھا کہ اتنا ہی اس پہ قابض ہو رہا تھا ،،


پھر اس کو شاید اس پہ ترس آہی گیا تھا ، اس کے لبوں کو آزاد کرتا وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا ،، وہ گہرے سانس لیتی اپنی سانسیں بحال کر رہی تھی ،، 


مجھ سے دور رہ کر بہت سکون میں ہو تم ،، میں وہاں تڑپ رہا ہوں اور تم یہاں مزے میں سو رہی ہو ,۔  

یہ تو غلط ہے جاناں ،،،

وہ اپنے انگوٹھے کو اس لبوں پہ لگاتا کہہ رہا تھا ،، 


🌺🌺🌺


آپ ،،، آپ یہاں اس وقت کیا کر رہے ہیں ،، 

وہ اپنی الٹ پلٹ ہوتی سانسوں کو سنبھالتی بولی تھی ،،


کیوں کوئی بھی شخص اپنی بیوی کے پاس "اس وقت " کو کیوں آتا ہے ،، جان بوجھ کو اس وقت پر زور ڈالتا وہ بولا تھا ،،،

تم اتنی چھوٹی بچی تو نہیں کہ تمہیں یہ پتا نا ہو ،، 


ناجانے اسے غصہ کس چیز کا تھا ،، جو اس طرح انگارے چبا رہا تھا۔ سیگریٹ کی بدبو اس قدر تھی ،، جیسے پتا نہیں دو دن سے سموکنگ ہی کر رہا ہو ،،


مہرون نائیٹی جس کا گلا کافی ڈیپ تھا ،، اس کے سینے کے نشیب و فراز سب واضح ہو رہے تھے اور وہ اس کے سینے پہ پہ نظریں گاڑھے بیٹھا تھا ،،

، 

پیچھے ہٹیں آپ کے پاس سے بہت سمیل آرہی ہے ،، جائیں برش کر کے آئیں پہلے ،،

وہ اپنی نائیٹی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی تھی ،، اس کے ابھار اتنے ڈیپ گلے سے باہر نکل رہے تھے ،، 


💕💕💕


 کافی زبان لگ گئی ہے تمہیں اب ,,

اب تو تمہیں مجھ سے سمیل آرہی ہے ،، اسی لیے ریسیپشن رکوایا ہے تمہارے باپ نے ،، 

 

وہ جو بیٹھنے کی کوشش کر رہی تھی وہ اسے ایک ہاتھ سے بیڈ پہ لٹاتا اس پہ قابض ہو چکا تھا ،۔ 

 

یہ کس طرح کے الفاظ آپ استعمال کر رہے ہیں بابا کے لیے ،، 

وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ کچھ دن ٹائم سپینڈ کروں اور کچھ نہیں ،، 

اور اس میں غلط بھی کیا ہے اتنے سال بعد اگر ہم ،،،،،


وہ اس کی تیز تیز چلتی زبان کو ایک لمحے میں روک گیا تھا ،،

ایک ہاتھ اس کی پتلی کمر میں ڈالے وہ اس کے پیٹ پہ اپنا ہاتھ چلا رہا تھا تو دوسرے ہاتھ سے وہ اس ہاتھوں کو پکڑے ہوئے تھا ,,،


انداز اس قدر شدت پسند تھا کہ وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی ،، 

اور پھر اس کے لبوں کو تب آزاد کیا جب خون کا ذائقہ اس کو محسوس ہوا ,,


🌹🌹🌹


آپ اس طرح کریں گے تو میں چلاؤں گی ،،، اور آپ کیا سمجھتے ہیں خود ،،،،

ایک بار پھر وہ اس کے لبوں کو قید کر گیا تھا ،، 

اب کی بار وہ اس پہ کوئی رحم نہیں کرنے والا تھا ,،،

اب اس کا ایک ہاتھ زرین کے حسین جسم کو نائٹی سے الگ کر چکا تھا ,, 

مرمریں وجود مکمل طور پر اس کے سامنے عیاں تھا ،،، 


اس کے لبوں کو آزاد کرتا وہ اس کی گردن پہ جھک گیا تھا ،، جانتا تھا نا کہ یہ ہی اس کی کمزوری ہے یہاں اکر وہ زیادہ مزاحمت نہیں کر پائے گی ،، ۔

🔥🔥🔥


آریان ,, ، پلیز ,،، کوئی آجائے گا ،،، 

بابا ،،، جاگ ،،، 

آہ ،،، آوچ ،،،،، اف ،،

جیسے ہی اس نے بابا کا نام لیا تو آریان نے اس کی نازک گردن پہ لو بائٹ کر دیا ،،، جس پہ وہ درد سے چیخی تھی،،


آج وہ اپنا سارا غصہ اس پہ ہی نکال دینا چاہتا تھا ،، 

گردن سے ہوتا وہ اس کے سینے پہ پہنچ چکا تھا ،، 

اس کے سینے کی موٹائی کو وہ اپنے مضبوط ہاتھوں کی مٹھی میں پکڑ رہا تھا۔ ، جس میں اس کے ابھار مکمل طور پر فٹ آتے تھے ،،،


😘😘😘

 

اس کے سینے پہ لگے گلابی سے نشان کو وہ اپنے لبوں میں لے چکا تھا ،، آج اسے وہ بخشنے کے موڈ میں بالکل نہیں تھا ،، 

وہ دبا دبا سسک رہی تھی ،، یہ بھی خطرہ تھا کہیں بابا نا آجائیں ،،، وہ ہر رات اسے چیک کرنے آتے تھے جیسے وہ کوئی چھوٹی بچی ہو ،، 


وہ اس کو تڑپا رہا تھا۔ ،، کبھی سینے پہ اپنے لبوں کے رنگ چھوڑتا تو کبھی گردن پہ وہ اسے کہنا چاہتی تھی کہ وہ اس کی گردن پہ کوئی نشان نا بنائے لیکن الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے ،،


وہ اسے سزا دے رہا تھا ،، لیکن اس کے نازک وجود کا کیا قصور تھا ،، جو وہ اسے یوں تڑپا رہا تھا ،،،  


❣️❣️❣️



اسے یاد تھا دو دن پہلے کی وہ رات جب اس نے خود اسے ارتضیٰ آفندی کے ساتھ جانے کی اجازت دی تھی ،،،



جبکہ ارتضیٰ اور سکندر صاحب باتوں میں مشغول تھے ،، زریں آٹھ کے مسز زارا کے پاس چلی گئی تھی ،،


ارے زرین تم یہاں کیوں آ گئی ہو ، بابا کے ساتھ بیٹھو باتیں کرو ،،

مسز زارا اسے کچن میں آتا دیکھ کر بولیں تھیں ،،


" بابا" ،،۔ کتنا ترسی تھی وہ اس لفظ کے لیے ،،

اور آج قسمت نے بنا کسی کوشش کے اسے اس کے "بابا" سے ملوا دیا تھا۔۔


مسز زارا کچھ دیر اس کے جواب کی منتظر رہیں لیکن وہ اس لفظ میں ہی اتنا گم تھی کہ کچھ اور سمجھ ہی نہیں سکی کے مسز زارا کی آنکھیں کیا کہہ رہی ہیں ،،


دیکھو زرین بیٹا ،، 

اب تک میرے اور تمہارے تعلقات اتنے اچھے نہیں رہے ، جس کی وجہ تم جانتی ہو کہ مجھے کچھ تحفظات تھے ، تم اچانک سے میرے بیٹے کی زندگی میں آئی اور پھر تمہارے خاندان کا بھی مجھے کچھ معلوم نہیں ہو سکا ،

آریان میرا اکلوتا بیٹا ہے ، میں جانتی ہوں سب کہ تم دونوں کے رشتہ کی شروعات کیسے ہوئی ہے ،، لیکن میرا بیٹا اب کیسا ہے میں یہ بھی جانتی ہوں ،، وہ شروع سے اپنی ہر چیز کے بارے میں بہت پوزیسو ہے ، تمہارے لیے بھی ہے 


مجھے بہت خوشی ہے کہ ارتضیٰ جیسا اچھا انسان تمہارا باپ ہے ،، اٹھارہ سال سے وہ در بدر پھر رہا ہے تمہارے لیے کیونکہ اسے یقین تھا کہ تم زندہ ہو ، اور اس کا یقین سچ ثابت ہوا 

لیکن یاد رکھو آریان بھی تم سے محبت کرتا ہے۔ ، وہ تمہارا شوہر ہے ، جب تمہارے پاس کوئی نہیں تھا تب وہ تھا جس نے تمہارا خیال رکھا ،، 

اس کی کچھ بری باتیں بھی ہونگی لیکن اچھی بیویاں اپنے شوہروں کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتیں ،، میں چاہتی ہوں کہ تم آریان سے پوچھ کر اس سے بات کر کے اپنے بابا کے پاس جاؤ ،، 


تم سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں ،،

مسز زارا زرین جو چپ کھڑا دیکھ کر پوچھ رہی تھیں ،،


جی ،، جی آنٹی مجھے سمجھ آرہا ہے ،،


  اس لیے اب تم جاؤ وہ دیکھو سامنے کھڑا ہے ،، کتنا اداس ہے جا کے اس سے بات کرو ،، 

وہ زرین کو کچن کی کھڑکی سے سامنے لان کا منظر دکھا رہی تھیں جہاں آریان کھڑا سموکنگ کر رہا تھا ,,


وہ اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئی تھی ،،، 


مدھم سی روشنی میں کھڑا وہ سیگریٹ پہ سیگریٹ پی رہا تھا ،، اس کی طرف اس کی کمر تھی ،، کل کی حسین رات اور گاڑی کا سفر مری سے اسلام آباد کتنا حسین تھا ،، 


اسے یاد تھا جب وہ اسلام آباد سے مری گئی تھی تو وہ آریان سے نفرت کرتی تھی ،، اور اب مری سے اسلام آباد کے سفر میں وہ اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی ،،، 


وہ مدھم سے قدم اٹھاتی اس کے پیچھے اکھڑی ہوئی تھی،،


مام ،،  

اب میں آپ کی یا۔ ڈیڈ کی اور کوئی نصیحت نہیں سننے والا اس لیے ،،، 

وہ بولتا ہوا رک گیا تھا ،، کیونکہ کوئی تھا جو اسے پیچھے سے گلے لگائے ہوئے تھا ،،،


وہ پیچھے پلٹا اور اسے دیکھنے لگا ،،،

وہ جب بھی اسے دیکھتا تھا اسے وہ پہلے سے زیادہ حسین لگتی تھی ،، اور اب تو وہ مسکراتی بھی تھی ،،


کیا آپ ناراض ہیں ،، ؟ 


کیا مجھے ناراض ہونا چاہیے ، ؟ 


سوال کے جواب میں ایک اور سوال آیا تھا ،،،


میرے اور بابا کے ملنے پہ آپ خوش نہیں ہیں ،،؟ 


اس کے بابا لفظ کہنے پہ وہ اس کے چہرے پہ بکھرا مکمل ہونے کا وہ احساس دیکھ سکتا تھا ،،


تم خوش ہو ؟ 

ایک بار پھر سوال کے جواب میں سوال کیا گیا تھا ،،


ہاں ،، بہت خوش ہوں ،،،

وہ سرشاری سے مسکرائی تھی ،، 


اگر تم بہت زیادہ خوش ہو تو میں بھی خوش ہوں ،،

عاشق محبوب کی خوشی میں ہی خوش ہوتا ہے ،،


اس کی کمر کے گرد بانہوں کا گھیرہ تنگ کرتا بولا تھا ،،،



اور وہ سرشاری سے مسکراتی اس کے ہاتھ سے سیگریٹ لیتی پھینک چکی تھی ،،،


تو پھر میں بابا کے ساتھ چلی جاؤں کچھ دن کے لیے ،،

اگر آپ کہیں گے تو نہیں جاؤں گی ،،، 


وہ ڈرتے ڈرتے بولی تھی ،،، 

اس کی طرف امید بھری نظروں سے وہ دیکھ رہی تھی ،،



نہیں ،، تم جتنے دن رہنا چاہتی ہو رہ لینا ،، 

لیکن آنا تمہیں میرے پاس ہی ہے یاد رکھنا ،،

وہ اسے بانہوں میں لیے ہی واک کرنے لگا تھا ،،،


یہ سارے پودے میں نے اپنے ہاتھوں سے لگائے ہیں ،، جب

میں ہاسٹل سے گھر آتا تھا نا تب میں پودے اور پھول لگاتا تھا ،، 

اس طرف والے مام نے لگائے ہیں ،،،

وہ اسے بتا رہا تھا ،، اور وہ غور سے سن رہی تھی ،،


محبت ان کے درمیان مسکرا رہی تھی ،، کھڑکی سے مسز زارا انہیں دیکھتیں مسکرا دی تھیں ،،،

 

❣️❣️❣️


 

پتا نہیں کتنے دانتوں کے نشان وہ اس کے نازک جسم پہ لگا چکا تھا ،، ایک عرصہ بعد وہ اتنا جنونی پھر سے ہو گیا تھا ،،


صرف ایک انکار اسے اتنا غصہ دلا گیا تھا ،،


وہ اس کی دودھیا ٹانگوں کو وہ اپنے سخت ہاتھوں سے کھولتا اس کے اوپر جھک گیا تھا ،،،


وہ اس کے خطرناک تیور دیکھ کر اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ اس کے جسم کی گہرائیوں میں اترتا جنونی انداز میں لگاتار اس کی جان ہلکان کر رہا تھا ،،،


وہ اسے روک رہی تھی ،،، 

اسے آہستہ کرنے کو کہہ رہی تھی ،، 

لیکن وہ کچھ نہیں سن رہا تھا ,،،


زریں اپنی چیخوں اور سسکیوں کو جتنا دبانے کی کوشش کر رہی تھی وہ ہر بار اس سے بھی زیادہ طاقت سے اس پہ حاوی ہوتا ،،

اب تو بیڈ بھی دہائیاں دے رہا تھا ،،

 

وہ یکدم سے اسے اوپر کرتا خود نیچے لیٹ گیا تھا ،،

اب زرین اس کی تھائیز پہ بیٹھی تھی ،، ہر جھٹکے پہ وہ بری طرح اچھلتی تھی ،، وہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھے سسکیوں کو دبا رہی تھی ،،،


آریان۔ ،۔ پ ،،، پلیز ،،، آہ ،،،، با با ،،،، سن ،،، آہ لیں گے ،،،

وہ اپنی ٹوٹتی سانسوں میں اس سے التجا کر رہی تھی 


 تو اچھا ہے نا کہ وہ بھی آجائیں ،، 

تاکہ انہیں پتا چلے کہ ان کی بیٹی سچ میں شادی شدہ ہے ،، 

اچھا ہے یہ ڈیمو وہ بھی دیکھ لیں،،،


وہ اس کی کان کی لو کو ہونٹوں سے چھوتا کہتا اس کی جان نکال رہا تھا،،


اس کے جسم سے بس اب جان ہی نکلنا باقی تھا،، 

وہ پسینے میں شرابور بے سدھ ہو کر اس کے سینے پہ آگری تھی ،،، 

اے سی کی ٹھنڈک بھی کچھ کام نہیں آسکی تھی ،،،وہ دونوں ہی پسینے میں نہا چکے تھے ,،،


پھر شاید اس ستم گر کو اس پہ ترس آہی گیا تھا کہ ،،وہ اسے چھوڑتا اپنے شارٹس پہننے لگا جو اس نے نیچے گرئے تھے،، 

 


اور وہ نیم بے ہوش برہنہ بیڈ پہ لیٹی گہرے سانس لے رہی تھی ،، ہر سانس کے ساتھ اس کا سینا اوپر اٹھ جاتا اور پیٹ مزید اندر چلا جاتا ،،،

سرخ چہرہ ،،، جسم جگہ جگہ سے نشانات سے بھرا تھا ،،، 

مدھم سی روشنی میں لیٹی وہ حسینہ اس کا دل پھر سے دھڑ کا رہی تھی ،،، لیکن اب اگر وہ اپنے دل کی آواز سن لیتا تو وہ بے ہوش ہی ہو جاتی،،، 


اور ویسے بھی صبح کے 4 بج چکے تھے ،، 


وہ کپڑے پہنتا اس کے پاس بیٹھ کے مہرون نائیٹی اسے پہنا رہا تھا ،،، 


زریں ،،، 

میری جان ،، آنکھیں کھولو ،،،

  

بہت برے ہیں آپ ،،،

وہ آنکھیں کھولتی ہلکے سے کہہ رہی تھی ،،


تمہیں پتا ہے نا کہ تمہارا جسم میری کمزوری ہے ،، زیادہ دن دور نا رہا کرو ،،، 

اب تم اپنے بابا کو کہو کے ہمارا ریسیپشن کریں ،،

کل ہم لوگ آئیں گے تم آج ہی بابا سے بات کرو ،،، 


کہتا وہ اس کے لبوں پہ جھکا اور اپنی پیاس بجھاتا جیسے آیا تھا ویسے ہی باہر نکل گیا ، 


پیچھے وہ اس کے لمس کو محسوس کرتی آنکھیں بند کر گئی ،، 


بابا نے انکار کیوں کیا تھا ،، وہ یہ سوچتی آنکھیں بند کر گئی تھی ،،، 

❣️❣️❣️



سکندر ولاء کی شام سے اگلا دن ،،، 

 آفندی منزل ۔۔۔۔

🍂🍂🍂🍂



وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی ،، یہ کمرہ تو اس گھر سے بھی بڑا تھا جس میں وہ اپنا سارا بچپن گزار کے آئی تھی ،، 

ایسے گھر اور کمرے کو تو وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی ،، 

کل رات تو اسے نیند ہی نہیں آئی تھی اگر چہ وہ اتنے عرصے سے آریان کے ساتھ ہی رہی تھی لیکں پھر بھی جو ملکیت کا احساس اسے اس گھر میں آکر ہوا تھا وہ اسے آریان کے پاس بھی نہیں ہوا تھا ، ،، 

یہ اس کے باپ کا گھر تھا ،، اس گھر کی وہ اکلوتی وارث تھی ،، ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ ارتضیٰ آفندی دروازے پہ ناک کرتے اندر داخل ہوئے،،،

وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی ،، 

 

بابا آپ ،،، 


میں اتنے سال اسی دن کی امید میں گزارے ہیں ،، کہ میرا اس دنیا میں ایک واحد رشتہ تم ہو ،، اور ایک دن تم مجھے بابا کہہ کر پکارو گی ،، 


اگر تمہیں کسی چیز کی تکلیف ہو یا کچھ چاہیے ہو تو مجھے بتانا ،، نہیں تو ڈرائیور کھڑا ہے ،،، یہ تمہارا اے ٹی ایم کارڈ ہے ،، جو چاہے لے لینا ،، 

وہ اس کے پاس بیٹھے میز پہ اے ٹی ایم رکھتے کہہ رہے تھے ،،


بیٹا مجھے معاف کر دو ،، میں اتنے سال تم سے دور رہا ،،، میں تمہاری اور تمہاری کی حفاظت نہیں کر سکا ،، اگر میں تب ناامید ہو کر ملک سے نا جاتا تو شاید آج تمہاری ماں بھی زندہ ہوتی ہم ایک فیملی کی طرح رہتے ،، 

اتنے سال تم اپنی ضروریات کے لیے ترستی نا ،، 

۔بات کرتے ہوئے ان کا لہجہ گوکیر ہو گیا تھا ،، بے ساختہ آنسو ان کی آنکھوں سے ہوتے ہوئے زرین کے ہاتھ پہ جا گرے تھے ،،


میں جب یہ سوچتا ہوں کہ تم پہ کس طرح کے ظلم ہوئے تو میرا بس نہیں چلتا ،، لیکن پھر یہ سوچتا ہوں کہ تم میرے پاس ہو اب اور کیا چاہیے ،، 

  

تم نے مجھے یہ تو بتا دیا کہ کس طرح تمہاری خالہ کے جانے کے بعد وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہتے تھے مگر تم نے مجھ سے یہ جھوٹ کیوں بولا کہ ،,,,,


آریان نے تمہیں ان لوگوں سے بچایا اور پھر تمہیں محفوظ کرنے کے لیے تم سے نکاح کر لیا ،،، 

 ۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہہ رہے تھے ،، اور وہ اندر تک ہل گئی تھی ،، ابھی کل رات ہی تو ان کے پوچھنے پہ وہ انہیں مختصراً بتا چکی تھی ،، اور اب ،،


جس آریان کو میں جانتا ہوں وہ اتنا اچھا نہیں ہوا کرتا تھا کچھ عرصہ پہلے جتنا تم نے بتا دیا ،،

سچ بتاؤ آریان نے تمہیں زبردستی اپنے پاس رکھا تھا ،، اور یہ نکاح یقیناً میری بیٹی کے زور دینے پہ ہی ہوا ہو گا ،،،

وہ جیسے آخری حد تک جاننا چاہتے تھے ،،، 


ہاں ،، لیکن وہ سب پہلے تھا ،، اب تو ،،,

وہ بات کرتی اچانک چپ ہوئی تھی جب اسے احساس ہوا کہ وہ کیا بول چکی تھی ،، لیکن اب دیر ہو چکی تھی ،،   


 "" آریان خانزادہ "'

ان کے چہرے پہ پتھروں جیسی سختی آگئی تھی ،، لیکن زرین کے دیکھتے ہی وہی نرم تاثر واپس آگیا تھا ،،


بابا ، , اب ایسا نہیں ہے ، ،، میرا مطلب پہلے بھی ایسا نہیں تھا لیکن اب تو وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں , ،،


وہ آریان کے بارے میں اپنے بابا کو شک میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی ،، وہ باپ اور شوہر کے تعلقات ٹھیک کرنا چاہتی تھی ،، 

وہ تب ہی خوش رہ سکتی تھی ،،


ہاں بیٹا ،، میں ملا ہوں اس سے بہت اچھا ہے ،، میں نے تو ایسے ہی پوچھا تھا تم سے ،، 

اچھا خیر تم آرام کرو ،، شاپنگ پہ جانا ہے تو اپنی آنٹی نورین کے ساتھ چلی جانا ،، 

چلو میں چلتا ہوں ،،، 

اور پھر اسی شام وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا ہوا بابا نے سکندر صاحب سے کچھ دن مزید کے لیے معذرت کر لی ،، 


وہ حیران تھی ،، لیکن اندر کہیں وہ وجہ جانتی تھی ،،  

آریان آگ بگولہ ہو رہا تھا تو اس کے بابا خوش تھے وہ کچھ دن مزید اپنی بیٹی کے ساتھ رہنا چاہتے تھے تو وہ منع کیسے کر سکتی تھی ،،


❣️❣️❣️❣️


حال ،,،، 

موجودہ دن ،،، 


کہاں سے آرہے ہو تم ،، 

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا مسز زارا سامنے کھڑیں اس سے پوچھ رہی تھیں ،،

ارے مام آج آپ اتنی جلد آٹھ گئیں ،، خیریت تو ہے ،، 

وہ کافی اچھے موڈ میں تھا ہوتا بھی کیوں نا ،، ساری رات جو اس دشمن جان کے ساتھ گزاری تھی ،،


 فضول بکواس کرنا بند کرو ،، میں نے تم سے پوچھا ہے تم کل رات کہاں تھے،،

  مسز زرا کافی غصے میں دکھائی دے رہی تھیں۔۔ 


 او کم آن موم ،، میں عثمان کی طرف تھا اپ کو پتہ تو ہے کہ ولید ہاسپٹل میں ہے ۔۔


 جھوٹ مت بولو میں جانتی ہوں تم ارتضی کی طرف تھے ساری رات تم زرین کے ساتھ ہی رہے ہو ،،


 ہاں رہا ہوں ،،، اور اگر میں نے ایسا کر بھی لیا ہے تو کیا غلط کیا ہے وہ میری بیوی ہے میں جب چاہے اس کے پاس جا سکتا ہوں،،

 اب کی بار آریان کو بھی غصہ اگیا تھا نہ جانے کیوں وہ اس طرح کی فضول سوال پوچھ رہی تھیں۔۔۔۔


 مسئلہ جانے کا نہیں ہے ،، مسئلہ جانے کے طریقے کا ہے تم آدھی رات کو اس کے گھر گئے ،،

دیواریں پھلانگ کے،، تم کیا سمجھتے ہو وہ چھوٹا بچہ ہے جس کو پتہ نہیں چلے گا ، کہ تم آدھی رات کو اس کے گھر گئے اس کی بیٹی کے کمرے میں گئے ،،،

 اج صبح ہی ارتضی آفندی کا فون آیا تھا وہ سخت غصے میں تھا آریان کی یہ حرکت اسے بہت بری لگی تھی ۔۔ 


 او تو اسے پتہ چل گیا ،،، پھر اسے پتہ چل گیا تھا تو وہ آدھی رات کو ہی کیوں نہیں کمرے میں آگیا وہ آ کے دیکھ لیتا کہ میں کیا کر رہا ہوں ،،،

 اریان کی اس بات پہ مسز زارہ انتہائی غصے میں اگئی تھیں۔۔ اور ایک تھپڑ اس کے منہ پہ رسید کر دیا تھا ،،


 ارتضی بالکل صحیح ہے ، اگر وہ تم سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کروانا چاہتا نا تو بالکل ٹھیک کہتا ہے ،، تم جیسا بے شرم انسان میرے بیٹا ہے ،،، میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔


 وہ کیا صحیح کر رہا ہے وہ ارتضی آپ ایسے اس کی طرف داری کیوں کر رہی ہیں اخر۔۔ 

 زرین بیوی ہے میری،،، میں چاہوں تو اسے ابھی کے ابھی اٹھا کے لا سکتا ہوں ،، اگر میں چپ ہوں تو صرف اور صرف اس کی عزت کی خاطر ،، مجھے مجبور نہ کریں کہ میں کوئی انتہائی قدم اٹھاؤں،، 


 تمہارے اندر ذرا سی بھی شرم باقی ہے تو اپنے باپ کا خیال کر لو ،، پہلے ہی ایک ہارٹ ٹیک ا چکا ہے اب دوسرا اسے دلوا کے موت کے منہ میں نہ پہنچا دینا ،،،

 مسز زرا صرف یہی نہیں رکی تھی وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی۔   

 جبکہ ان کی اس بات پہ وہ زخمی نظروں سے مسز زارا کو دیکھ رہا تھا ۔۔


 مت بھولو تم یہ بات کہ اگر ارتضی کو یہ پتہ چل گیا کہ تم نے کیسے ذرین کو اپنے فارم ہاؤس پہ رکھا ،،

اور اگر وہ تمہیں نکاح کے لیے فورس نہ کرتی تو تم تو اسے اپنے دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کے کھانے والے تھے ۔۔۔


 مسز زہرا کی یہ بات جیسے جلتی ہوئی اگ پہ تیل کا کام کر گئی تھی ۔۔۔ وہ جو اندر سے پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا اور غصے میں تھا ان کی یہ بات سن کر وہ اپنے اپے سے ہی باہر ہو گیا تھا ،،، 


 مجھے سمجھ نہیں ارہا کہ کیا اپ میری ماں ہیں یا ارتضی آفندی کی بیوی ہیں ،،، کیا اپ مجھے ذرا سمجھا ۔۔۔۔


 ابھی وہ اپنی بات پوری ہی نہیں کر سکا تھا کہ مسز زارہ نے ایک زور دار تھپڑ اس کی دوسرے گال پہ رسید کر دیا تھا۔ ۔ 


 اس سے کیا ہوگا ،، اس کی انکھوں میں انسو اگئے تھے ،،، نہ جانے یہ انسو تھپڑ کے درد کے تھے ،،،

 یا پھر ان الفاظ کے تھے جو مسز زرا نے کہے تھے،،

بہت تلخ مسکراہٹ لیے ان کی طرف دیکھتا اگے بڑھ گیا تھا ،


 جبکہ مسز زرا اپنے ہاتھ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ۔۔۔ ساری زندگی انہوں نے اپنے شہزادے جیسے بیٹے پہ کبھی انگلی بھی نہیں اٹھائی تھی اور اج ۔۔۔۔

💔💔💔




Previous
Next Post »
0 Komentar