Hum Nasheen most Bold Urdu Novel ♥️ Last Episode Part 2 By Anaiza Batool

 #ہم_نشین

از قلم عنائزہ بتول 

موسٹ بولڈ اردو ناول 

لاسٹ اپیسوڈ (پارٹ ٹو)

Hum Nasheen 

Written by Anaiza Batool 

Copyright owner 

Novel Dot Com Official 

Last episode Part 2 


Most Bold Urdu Novel 





سکندر ولاء 


ہر طرف روشنیاں جلتی بجھتی نظر آرہی تھیں ۔۔

گیٹ کی اینٹرینس پہ لگے سفید للی کے اردگرد بھی ایک سٹائل سے لائٹس لگائی گئیں تھیں ۔۔

لان کے ایک طرف مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے وسیع و عریض انتظام کیا گیا تھا تو دوسرہ طرف کھانے کے انتظامات تھے ،،

سٹیج پہ مکمل انتظام کر دیا گیا تھا ،، ایک طرف ڈی جے موجود تھا جو اس تقریب کو دل کے اندر تک جانے میں مدد دے رہا تھا ۔۔


کچھ جوڑے سوئمنگ پول کے پاس کھڑے حسین نظارے کو اپنے موبائل میں قید کر رہے تھے ۔۔


سوئمنگ پول کے ارد گرد خوبصورت پھولوں اور سفید اور نیلی روشنیاں چمک رہی تھیں ۔۔


سوئمنگ پول کے آگے بہت ہی خوبصورت سٹیج لگایا گیا تھا ،، 

جس کی سجاوٹ نہایت ہی شاندار لگ رہی تھی۔  سٹیج پر گلابی گلاب اور  للی کے پھولوں سے گولائی کی شکل میں اینٹرینس بنائی گئی تھی ۔۔


سٹیج کے پاس ڈی جے میوزک مینیج کر رہا تھا۔ ، ہلکے میوزک اور ہلکی ہوا جو کہ اس گرمی کے موسم میں بھی ٹھنڈی تھی،، آسمان ہلکے بادلوں سے گرا تھا ،، 


دلہا دلہن کی اینٹرینس کے لیے بھرپور انتظامات کیے جاچکے تھے ۔۔  


اب اگر گیٹ کے پاس آؤ تو  مسز زارا اور سکندر صاحب کھڑے تھے وہ آنے والے مہمانوں کو ریسیو کر رہے تھے ۔۔

مسز زارا سیاہ سلک کی ساڑھی زیب تن کیے ہوئے رات کے ہم مزاج لگ رہی تھیں ،، سنہری بالوں کا جوڑا بنائے ڈائمنڈ جیولری  پہنے آج تو ان کی چمک ہی الگ تھی ۔۔

آج ان کے بیٹے کی ریسیپشن پارٹی تھی ۔۔


وسیع لان اس وقت لوگوں سے بھرا پڑا تھا ۔۔

سارا منظر اتنا حسین تھا جتنا اسے ہونا چاہیے تھا ،،  ہوتا بھی کیوں نا آخر کار خان فیملی کے اکلوتا جان نشین  کی شادی تھی ۔۔۔  آریان خانزادہ ،، جو کہ سوشل سرکل میں اپنی خوبصورتی اور خوبرو اور ذہین ہونے کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔۔۔


اتنی کم عمر میں وہ اپنے باپ کے بزنس کو کہاں سے کہاں لے گیا تھا ،،  بہت سے بزنس مین اور سیاست دانوں اسے اپنا داماد بنانا چاہتے تھے ،، بہت سی امیر اور خود کو حسین دوشیزہ سمجھنے والی لڑکیاں بھی اس پارٹی میں ایک سے بڑھ کر حسین بن کے آئی تھیں ،،۔ 


آخر کو وہ بھی تو دیکھیں کون ہے وہ لڑکی جسے آریان نے چنا ہے ،، وہ ان سے زیادہ حسین تو نہیں ہو سکتی ۔۔۔


 آخر کار سامنے شخص آریان خانزادہ تھا اور اس کی ریسیپشن پارٹی تھی کوئی عام بات نہیں ۔۔۔


آخر کار سب کا انتظار ختم ہوا ،، اور  سٹیج کے دوسری جانب سے سڑھیاں چڑھتے ان دونوں کے سر نمایاں ہونے لگے،،

گول دائرے کی صورت میں روشنی انہیں نمایاں کر رہی تھی ،،


ان کے چلنے کے اوپر فائر ورکس جو ایک بعد ایک  چل رہی تھی ،، 

اور پھولوں کی بارش جو کے سٹیج پہ سیٹ کیے گئے تھے ،،


آریان بلیک سٹائلش ڈنر سوٹ میں تھا ،، لمبی ٹائی کی جگہ بٹرفلائی ٹائی کا استعمال کیا گیا تھا ،، 

بالوں کا ہئیر اسٹائل بھی چینج تھا ،، جیل سے براؤن بال ایک جانب جمائے ہوئے تھے ،، ہلکی داڑھی میں صاف رنگت کے ساتھ وہ آج پہلے سے زیادہ جازب لگ رہا تھا ،،


وہ اپنے ایک ہاتھ سے زرین کو ڈانس کی صورت میں گھما رہا تھا ،،

زرین جو کہ ہلکے گلابی رنگ کے فئیری فراک میں تھی ،، جو کے بہت قیمتی انداز سے تیار کی گئی تھی ،،

بالوں کو  لوز کرل  کر کے  آگے کو ڈالا گیا تھا ،، 

ڈوبٹہ سر پہ جمائے ،، مومی چہرہ کے ساتھ ،، 

وہ آریان کے گھمانے پر کسی گڑیا یا سنڈریلا جیسی لگ رہی تھی ۔۔ جسے اس کا شہزادہ مل گیا ہو ۔۔


وہ دونوں ایک ساتھ اتنے مکمل اور حسین لگ رہے تھے کہ ہر کسی کی آنکھیں ٹھہر گئیں تھیں ،،

 مبہوت تو مسز زارا سکندر بھی رہ گئیں تھیں ،، انہوں نے اپنے بوتیک سے دن رات ورکرز کو لگا کر یہ زرین کا ڈریس تیار کروایا تھا ،،  

ان کی بہو کو سب سے الگ اور حسین نظر آنا چاہیے تھا ،،


ان کے بیٹے کا انتخاب بہت خوبصورت تھا ،، آج وہ بھی دل سے مان گئیں تھیں۔ 


نورین آفندی بھی انہی دیکھ رہی تھی ، سامنے کھڑا لڑکا جو ان کا داماد تھا ،، اس نے کتنا سٹینڈ لیا تھا زرین کو حاصل کرنے کے لیے ،، ،،


دوسری طرف ارتضیٰ آفندی اپنی آنکھوں میں آئے خوشی کے آنسو صاف کرتے زرین کو دیکھ کر مسکرا دیے تھے ،،

ان کی بیٹی کا انتخاب غلط نہیں تھا ،،  آج انہیں بھی یقین ہو گیا تھا ،،۔ شکر تھا کہ انہوں نے اس کا گھر اپنے ہاتھوں برباد نہیں کر لیا تھا ۔۔


 ،،


وہ دونوں کنگ سائز صوفوں پر بیٹھے تھے ،، سب لوگ باری باری انہیں تحائف دیتے  اور دشمن بھی تعریف کرتے ،، وہ دونوں ایک ساتھ اتنے مکمل اور خوبصورت دکھائی دے رہے تھے ۔۔


فوٹو گراف ان حسین پلوں کو کیمرے میں قید کر رہے تھے

۔۔


بس کر دے یار مجھے خطرہ ہے کہیں تیرے سارے دانت باہر نا گر جائے ، 

ولید آریان کے مسکرانے پہ طنز کر رہا تھا ،،


ہاں یار ، 

اگر گر گئے اس کے دانت تو قسم سے بڑی بدنامی ہو جانی ہے ،،

اگر ایسا ہوا تو آریان یاد رکھیں میں نے تجھے آج تک کبھی دیکھا بھی نہیں ،،

عثمان ڈرامائی انداز میں بولا تھا ،،

وہ دونوں فوٹو شوٹ کر وا رہے تھے آریان کے ساتھ ،، 

زرین کے ساتھ آئزہ اور شانزے بیٹھیں تھیں ۔۔۔


آج آریان کو کسی بات پہ غصہ نہیں آرہا تھا ۔۔

وہ ان دونوں کے طنز سننے کے بعد بھی قہقہ لگا کر ہنسا تھا ۔۔۔


جبکہ اب کی بار اس قہقہہ میں ان تینوں کا قہقہے شامل تھے۔ 


سب لوگ جا چکے تھے ۔۔ 

کھانا لگ چکا تھا ،،


 ناک ،، ناک ۔ 

آریان اپنی ایک انگلی سے زرین کے ہاتھ پر دستک دیتا بولا تھا ۔۔


وہ حیرانی سے اس کی جانب دیکھے گئی ۔  وہ دونوں سٹیج مختلف پوز دے کر تھک چکے تھے ۔۔ 


سنیے اے پری وش حسینہ ،،،

کیا آپ میری بیوی کو جانتی ہیں ؟؟

آپ نے انہیں کہیں دیکھا ہے ؟؟؟


زرین اس کے اس طرح کہنے پہ مزید حیران ہوئی تھی ۔۔


کیا ہے نا کر یہاں ہر عورت بہت سا میک آپ لگا کر گھوم رہی ہے تو مجھے پہچان نہیں آرہی ۔۔۔

۔وہ شرارت سے مسکراہٹ دباتا بولا تھا ۔۔


میں بھی یہاں اپنے ہسبنڈ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔


وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی مسکراہٹ دباتی ہوئی بولی تھی۔۔۔


خبر دار جو کسی کو ڈھونڈا تو ،، 

یہاں دیکھو ۔۔ اس طرف۔۔

اور مجھ سے محبت کرو ۔ 

سنا تم نے  ۔۔۔

وہ مصنوعی غصہ کرتا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا تھا ۔۔


اچھے لگ رہے ہیں آپ ۔۔۔

اس کا ہاتھ نرمی سے تھامتی وہ بولی تھی ۔۔۔


وہ جو غصے میں تھا یکدم سے مسکرا اٹھا ۔۔۔

تم بھی ۔۔۔

بیت "لو یو " لگ رہی ہو 


جبکہ وہ اس کی بات سن کر بے ساختہ ہنسی تھی۔۔

تعریف کرنے کا یہ انوکھا طریقہ اس نے آج پہلی دفعہ سنا تھا ۔۔۔

کیا ۔۔ ۔

لو یو۔۔۔۔


نہیں ۔۔۔

" کس یو " لگ رہی ہو۔  

وہ اس کی بات کا جواب دیتا کھڑا ہوتا  اس کے آگے ہاتھ پھیلا رہا تھا ۔۔ 


اور وہ  اس کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیے مسکراتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔  


ان کی فلائٹ کا ٹائم ہو رہا تھا ۔۔۔

مہمان کچھ جا چکے تھے ۔۔ اور کچھ جا رہے تھے ۔۔


بہت سی نظروں کو اس نے نظر انداز کیا تھا۔ 

وہ بدل گیا تھا۔  

اسے اب صرف اس پری وش کا ہو کر رہنا تھا ۔۔

جو اس وقت اپنے بابا سے مل رہی تھی ۔۔۔


وہ دونوں قدم سے قدم ملاتے ایک دوسرے کے سنگ اندر کی طرف بڑھ گئے۔  

آج وہ آسٹریلیا کے لیے نکل رہے تھے ۔۔۔

ایک نئے سفر کی طرف ۔۔

پیار کے سفر کی طرف ۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️


گہما گہمی ،، اور بہت سے شور میں وہ دونوں نفوس چلتے ہوئے آرہے تھے ۔۔ 

مرد نے اپنے ہاتھوں میں بیگ تھام رکھے تھے۔ ، جبکہ لڑکی نے ایک ہیند کیری بیگ پکڑے رکھا تھا ۔۔


چہرے پہ سیاہ ماسک لگائے ،، سر پہ پی کیپ پہنے وہ ساتھ چلتے مرد کے قدموں سے قدم ملاتی جا رہی تھی۔۔۔ جبکہ مرد کا چہرہ عیاں تھا ۔


وہ دونوں آریان اور زرین نہیں بلکہ مونا اور افضل تھے۔۔۔


تم ابھی تک  رو رہی ہو ۔۔  میں نے کہا ہے نا کہ پریشان مت ہو ۔۔۔ ہم بہت جلد آنٹی کو بھی اپنے پاس کینیڈا بلا لیں گے۔۔۔


افضل نے اسے روتا دیکھا تو ایک بار پھر سے سمجھانے لگا گیا ۔۔


کل شام کو ہی انہوں نے نکاح کیا تھا اور آج افضل اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے لیے سکالرشپ پہ اپنے ساتھ مونا کو بھی لئیے کینیڈا  جا رہا تھا ۔۔


پتا نہیں کیوں ،، مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے ۔۔

جب اب میں اس دلدل سے نکل گئی ہوں تو لگ رہا ہے کہ اپنے پیچھے کسی بہت اپنے کو چھوڑے جا رہی ہوں ۔۔


وہ روتے ہوئے بولی تھی ۔۔


اوہو ۔۔ جان ،، 

یہاں سب سمجھیں گے میں تمہیں اغواہ کر کے لے جا رہا ہوں ۔۔

جاؤ شاباش واش روم میں منہ دھو کر آؤ ۔۔

وہ اسے سامنے واش روم کی طرف بھیج رہا تھا ۔۔


جسیے ہی وہ آگے بڑھی کوئی اس سے آگے جلدی سے گزرا ،،

گزرنے والے کا چہرہ وہ دیکھ چکی تھی ۔۔۔


دلاور ۔۔۔

اس کے لبوں نے سرگوشی کی تھی۔۔

مگر دوسرے ہی لمحے وہ غائب ہو گیا تھا ۔۔

لیکن اس نے دیکھا تھا وہ ابھی کچھ لمحے قبل تو یہیں تھا ۔۔۔

بے ساختہ اس کا ہاتھ اس کے پرس کے اندر رکھے موبائل پر گیا تھا ۔۔


واش روم میں گھستے ہی اس نے موبائل نکالے عثمان کو کال کی تھی ۔۔

جب سے آریان نے اس کی حفاظت کی زمہ داری لی تھی ،۔ کامران یا عثمان اس سے رابطے میں رہتے تھے ۔


اب تو اس کو باحفاظت ملک سے نکالنے کے لیے عثمان نے ان دونوں کے پیچھے اپنے دو پولیس والے بھیجے تھے ۔

مونا کو ڈر تھا دلاور اسے ضرور تنگ کرے گا ۔ 

اس کا بھیانک ماضی اس کا پیچھا نہیں چھوڑنے والا ۔۔۔


وہ واش روم سے باہر نکلتے ہی مناسب قدم لیے آگے بڑھ رہی تھی ۔۔ سامنے ہی افضل کھڑا کافی خرید رہا تھا ۔۔

اسے جلد سے جلد اس کے پاس پہنچنا تھا۔ 


تبھی کسی نے پیچھے سے اس کے منہ پہ اپنا مضبوط ہاتھ رکھا 

تھا ۔۔ گھٹی سے چیخ اس کے لبوں سے نکلی تھی ۔۔


چپ چاپ میرے ساتھ چلو ۔ ورنہ یہیں تجھے اور تیرے اس شوہر کو زندہ گاڑ دوں گا ۔۔

یہ آواز ،، اسی شخص کی تھی۔  وہ اس کا دھوکہ نہیں تھا ۔ 


اس کے پاس اس کی بات ماننے کے علاؤہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ۔  ارد گرد نظر گھما کر اس نے کسی کو تلاش کرنا چاہا تھا۔ 

لیکن افضل اس کی طرف نہیں دیکھا رہا تھا۔  ۔


چل سالی ۔۔ ۔

رنڈی کی اولاد نا ہو تو ۔۔ 

دلاور کو چکما دے کر فرار ہونا آسان نہیں ۔ 

وہ اس کو دھکا دیتے ہوئے پھنکارا تھا۔ 


فلائٹ تیار تھی ۔۔  اناؤسمنٹ ہو رہی تھی ۔  انہیں چیک آؤٹ کرنا تھا۔  

لیکن وہ اس کے ساتھ چلنے لگی تھی اس کے علاؤہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا ۔۔

لیکن تبھی اسے پیچھے سے ایک زور دار دھکا لگا تھا کہ وہ نیچے جا گری تھی ۔ ۔


پیچھے سے شور پہ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ 

دلاور پولیس کے ہاتھ لگا چکا تھا ۔۔ 

اور اس کے سامنے افضل ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔ 

وہ اس کا ہاتھ تھامتی آٹھ کھڑی ہوئی تھی۔  

افضل کا فیصلہ ٹھیک تھا ۔ اس کو ایک پرسکون زندگی کے لیے یہ ملک چھوڑنا ہی تھا۔   

وہ دور جاتے دلاور پر نظر ڈالتی سوچ رہی تھی ۔

جو مسلسل چیخ رہا تھا ۔۔۔۔


وہ اس کے ہمراہ چیک آؤٹ کرنے کی طرف چل دی ۔۔

اب یہاں اس کا کچھ باقی نہیں تھا۔  

اسے ڈاکٹر کے وہ الفاظ یاد آئے تھے ۔۔ جو اس نے ہاسپٹل میں سنے تھے۔  


" دیکھیں ان کے دماغ کا کچھ حصہ سو رہا ہے ،  جس طرح ہم کسی آپریٹ کو کرنے کے لیے کسی جگہ کو سن کر دیتے ہیں ،، ویسے ہی ان کی یادیں کہیں کھو گئی ہیں ۔


اس طرح کے پیشنٹ زیادہ تر  اپنی عمر کے آخری حصہ میں کم ٹھیک ہوتے ہیں۔ ۔  

لیکن ہم پوری کوشش کر رہے ہیں ،،۔ آپ یقین رکھیں یہاں پر ان کا علاج بہت بہتر ہو رہا ہے ،، آپ انہیں جہاں کہیں بھی لے جائیں گی ،، آپ کو نتیجہ ایسا ہی ملے گا۔۔۔


ہمیں امید ہے ہم انہیں ایک سال کے اندر بہتر کر لیں گے ۔۔ آپ بھروسہ رکھیں۔  "'


وہ اس وقت جہاز میں بیٹھ چکے تھے۔   جہاز رن وے پر بھاگ رہا تھا۔  


افضل اس کا سیٹ بیلٹ باندھتا اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے تھا۔  


وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دی تھی۔۔۔

وہ خوش قسمت تھی۔   جو ایسی زندگی جو کہ ایک گالی تھی اسے چھوڑ کر مکمل زندگی جینے جا رہی تھی۔ 


وہ مطمعن انداز میں مسکرا دی تھی۔  

اس کے کندھے پہ اپنا سر رکھے آنکھیں موند گئی تھی۔  کانوں میں موجود ہینڈ فری میوزک سنا رہی تھی۔   


زندگی اب پرسکون گزرے گی اس کی امید کی جاسکتی تھی۔اب۔۔  افضل اس کے منہ چاکلیٹ ڈال رہا تھا ،، وہ آنکھیں بند کیے ہی اس چاکلیٹ کی مٹھاس کو محسوس کر رہی تھی ۔۔

اس کی زندگی بھی اتنی ہی میٹھی ہو گئی تھی ،، 

اور اسے امید تھی کہ آگے بھی ایسے ہی ہو گی ۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


💕💕💕


سوئٹزرلینڈ ۔۔۔۔


یہاں کی آب و ہوا سال کے تین سو ساٹھ دن سرد ہی رہتی ہے ۔۔ 

اور باقی کے پانچ دن موسم ہلکی گرمی کی جھلک دکھاتا ہے ..

یہ سال کے وہ دن ہوتے ہیں جب دور دراز سے یہاں لوگ تفریح کرنے آتے ہیں ۔۔ 

سارا سال چونکہ یہ ملک برف سے گرا ہوتا ہے ، اس لیے جولائی سے اگست تک موسم خوشگوار ہوتا ہے ،، اس میں بھی کبھی  بارشیں ہوتی ہیں ۔۔ 


وہ دونوں اس وقت کشتی میں تھے ۔۔  "جھیل لیوسرنے" کے اطراف میں نظر آتے حسین مناظر آنکھوں کو بہت اچھے لگ رہے تھے ۔ 

کہا جاتا تھا کہ اگر آپ سوئٹزرلینڈ کی خوبصورتی کو  ایک جگہ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو "جھیل لیوسرنے" ضرور جانا چاہیے ۔۔۔


انہیں آسٹریلیا سے آئے ہوئے دوسرا ہفتہ تھا ۔  اور ان کے ورلڈ ٹور کا یہ دسواں دن تھا۔  


ان کی طرح اور بھی بہت سے لوگ کشتی میں موجود موبائل پہ ان مناظر کو قید کر رہے تھے ۔۔


آریان اس وقت سیاہ شرٹ اور سیاہ ہی کھلے ٹراؤزر میں تھا ۔

آنکھوں پہ سیاہ گلاسز لگائے اپنی صاف رنگت کے باعث وہ کوئی انگریز ہی لگ رہا تھا ۔۔۔


جبکہ زرین  پیلے رنگ کا بھول دار فراک پہنے ہوئے تھی ،، جس کے ساتھ وہ سفید جینز پہنے ہوئی تھی ۔۔ سر پہ ہیٹ رکھے ۔۔ گلے میں مفکر لپیٹے ۔۔ بالوں کی ڈھیلی سی چوٹی بنا رکھی تھی ۔جو اس کی کمر پہ جھول رہی تھی ۔۔ کچھ آوارہ لٹیں ہوا کے باعث اس کے چہرے کے اطراف میں گھوم رہیں تھیں۔  


وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خوبصورت ہو رہی تھی ۔۔

آریان کے ساتھ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ پرسکون رہتی تھی ۔۔

اس کے گال گلابی ہو رہے تھے ۔۔۔

ماں بننے کا روپ اس پہ ٹوٹ کر آرہا تھا ۔۔


آریان دیکھیں یہ کتنا پیارا لگ رہا ہے نا ۔ 

وہ سورج غروب ہونے کے مناظر کو دیکھ کر چیخی تھی ۔

یہاں موجود سارے لوگ سوئٹزرلینڈ کی سرزمین پر سورج غروب ہونے کا حسین منظر ہی دیکھنے آئے تھے ۔۔ 


ہاں بہت خوبصورت ہے ۔۔۔

وہ اس کے چہرے پہ اپنی نظریں جمائے بولا تھا۔ 

اسے سامنے کے منظر سے زیادہ اس حسینہ میں دلچسپی تھی ۔


لیکن یہ کیا سورج غروب ہوتے ہی اگلے پل بارش شروع ہو چکی تھی ۔۔۔ 

وہ تو گرمی کے مناسبت سے ہلکے پھلکے کپڑے پہن کر آئے تھے ۔۔ اور اب سردی کا احساس ہو رہا تھا ۔۔۔


زرین اپنے بازؤں پہ ہاتھ ہھیر رہی تھی ۔ 

اسے دیکھتے ہی آریان نے اسے اپنے گلے لگا لیا ۔۔۔


تمہاری سردی کا علاج میری بانہوں میں ہے ۔۔۔

اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔  


اور واقعی ہی اس کی بانہوں میں آتے ہی اسے سکون محسوس ہو گیا تھا ۔۔ وہ اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹے ہوئے تھا ,،، 

اور زرین اس کے سینے پہ سر رکھے آنکھیں موند گئی تھی ۔۔۔


اب وہ لوگ واپس جا رہے تھے ۔۔ بارش کی وجہ سے شام رات میں تبدیل ہو رہی تھی ۔۔ کشتی کا رخ ہوٹل کی طرف موڑ دیا گیا تھا ۔۔ یہ کشتی بھی ہوٹل کی طرف سے تھی جس میں مختلف سیاح خوبصورت مناظر دیکھنے کے لیے سوار ہوتے تھے۔  


رات کے اترتے  گہرے سائے ،،۔  اور ایسے میں ہلی ہوتی بارش میں ارد گرد کا نظارہ پہلے سے بھی زیادہ حسین ہو گیا تھا ۔ ۔

 

سامنے نظر آنے والا ہوٹل سوئٹزر لینڈ کے لگزری ہوٹل میں سے ایک تھا۔  شاندار ہوٹل جو کے دیکھنے سے کسی محل جیسا لگتا تھا ،، پیچھے اونچے پہاڑوں سے گرا ہوا تھا ،، تو سامنے کی جانب خوبصورت سی جھیل حسین منظر پیش کر رہی تھی ،،

جھیل کے  پاس مختلف کشتیاں ،، اور گرد خوبصورت سٹریٹ لیمپ لگے ہونے کی وجہ سے بہت خوبصورت منظر پیش ہو رہا تھا ۔۔۔


ہوٹل کی دائیں طرف جھیل سے ہوتی ہوئی سڑک جاتی تھی۔  اور بائیں جانب اونچے درخت اور پھول دار پودے ایک حسین باغ کا منظر پیش کر رہے تھے ۔۔ 


فون مسلسل بج رہا تھا ،، پہلے تو وہ کچھ دیر تک انتظار کرتی رہی مگر پھر جب فون بند نہیں ہوا تو باتھ ٹاول خود کے گرد لپیٹیتی واش روم سے باہر نکلی ۔۔

آریان روم میں نہیں تھا ۔۔

مام کالنگ ۔۔۔ جگمگا رہا تھا ۔۔


جی مام ۔۔  کیسی ہیں آپ ۔۔

وہ فون کان سے لگاتی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑی ہوئی ،،  ٹاول  اس کی تھائیز تک آرہا تھا۔  ایک ہاتھ سینے پہ رکھے وہ اپنا عکس آئینہ میں دیکھ رہی تھی ۔۔


وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی ، آریان صحیح کہتا تھا۔  اس کا رنگ پہلے سے زیادہ کھل گیا تھا ،، 

ماں بننے کا روپ  اس پہ آرہا تھا ۔۔


کیا ،،، 

آج ان کی سالگرہ ہے ۔ 

مسز زارا کی بات سن کر وہ حیرانگی سے بولی تھی ۔


انہوں نے اسے سالگرہ کی مبارک باد دینے کے لیے فون کیا تھا،، 

وہ بتا رہی تھیں صبح سے فون نہیں ہو رہا تھا ،، 


آج ان  کی برٹھ ڈے ہے ،، اور مجھے پتا ہی نہیں ہے، ،

وہ بیگ کھولے بلیک نائٹی پہنتے ہوئے منہ میں ہی بڑبڑا رہی تھی۔   


اف ،،، اب کیا کروں،، 

میں نے تو  کچھ بھی پلین نہیں کیا ،،  ان کی پہلی سالگرہ ہے شادی کے بعد اور مجھے پتا ہی نہیں ،،


وہ کمرے میں چکر کاٹتی خود سے ہی باتیں کر رہی تھی ۔۔


کیا ہوا ،، 

اس طرح چکر کاٹتی کہیں گر نا جانا ، اگر تم گر گئیں تو میرا بہت نقصان ہو جائے گا ۔۔

وہ اندر داخل ہوتا اسے اس طرح چکر کاٹتی کو دیکھتا بولا تھا ۔۔

 

کیا آپ کو کسی نے گفٹ دیا ہے ۔۔ 

وہ اس کے ہاتھ میں پکڑے بوکے کی طرف دیکھتی پوچھ رہی تھی ۔ 


آں ۔۔۔ یہ ،۔ نہیں  ،، یہ تو میں تمہارے لیے لے کر آیا ہوں ۔ وہ اسے پیچھے سے اپنی بانہوں میں بھرتا بولا تھا ۔۔


وہ جانتا تھا اس کو نہیں پتا کہ آج اس کی سالگرہ ہے ۔۔

یہ بوکے اسے  یہاں اس کے ایک بزنس دوست نے دیا تھا ، جس سے وہ ابھی مل کے آرہا تھا ،، وہ تو برٹھ ڈے پارٹی کرنا چاہ رہا تھا ،، لیکن آریان نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہ ہنی مون وکیش پر  ہے ۔۔۔

۔


وہ اس کے نم بالوں کی خوشبو کو اندر اتارتا اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹے کھڑا تھا۔ 


ہیپی برتھڈے ۔۔۔

چند لمحوں بعد وہ آہستہ سے بولی تھی ۔۔

وہ چونک گیا تھا ۔۔ 


میرے پاس ابھی ایسا کچھ نہیں کہ میں آپ کو گفٹ دے سکوں ، اور سچ کہوں تو مجھے پتا بھی نہیں تھا ،، یہ تو آپ کی مام کی کال آئی تو انہوں نے بتایا ۔۔


لیکن میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں اگلے سال سے آخری سانس تک آپ کی جتنی برٹھ دے آئیں گی میں آپ کو سب سے پہلے وش بھی کروں گی اور گفٹ بھی دوں گی۔۔۔


وہ اس کی طرف مڑتی کہہ رہی تھی ۔۔  وہ شرمندہ ہو رہی تھی ۔ آریان نے اسے کتنے قیمتی تحفے دیے تھے اور ایک وہ تھی اس کو اس کی برٹھ ڈے بھی یاد نہیں تھی ۔۔۔


میری جان ،، 

تم مجھے دنیا کا سب سے قیمتی تحفہ دے تو رہی ہو ،، جو مجھے کوئی بھی نہیں دے سکتا ۔۔ 

تو پھر شرمندہ کیوں ہو رہی ہو ۔۔۔ میرا وارث ،  

تم مجھے اولاد دے رہی ہو ۔۔۔ 

ابھی بھی کہہ رہی ہو کہ تم مجھے کچھ نہیں دے پا رہی۔۔۔


وہ اس کے بے بی بم ( جو کہ ابھی محسوس بھی نہیں ہوتا تھا) پہ ہاتھ پھیرتا  بولا تھا ۔۔


وہ شرما گئی تھی۔  گال سرخ ہونے لگے تھے۔ 


لیکن اگر پھر بھی تم مجھے گفٹ دینا ہی چاہتی ہو تو ۔۔

وہ اس کے نائٹ گاؤن کی ناٹ کھینچتا بولا تھا ،، 

نائٹ گاؤن نیچے جا گرا تھا ،، وہ اس صرف ایک باریک نائٹی جن میں تھی اب ۔ جو اس کی تھائیز تک تھی۔۔۔


 تو خود کو مجھے دے دو ،، کم سے کم آج رات کے لیے ۔۔۔

وہ اس بال گردن سے ہٹاتا اس کے کان کے پاس جھکتا بولا تھا ۔


زرین کی جان نکلنے لگی تھی۔   اس کا ہر انداز ہی جان لیوا تھا۔ 


وہ۔  آپ کی برٹھ ڈے ہے تو کیوں نا ہم کیک ہی کٹ کر لیں ۔۔۔

وہ اس سے دور ہوتی جا کے صوفے پر بیٹھ گئی تھی ۔۔


اچھا ایسا ہے کیا ۔۔ 

وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا ۔۔ 

تبھی دروازہ ناک ہوا تھا ۔۔ آریان دروازہ کھولتا ہاتھ میں چاکلیٹ کیک لیے اندر داخل ہو رہا تھا ۔۔۔


وہ حیران ہوئی تھی ۔۔

اور وہ مسکراتا ہوا ۔۔ کیک میز پہ رکھتا ، کینڈلز جلاتا کمرے کی لائٹ آف کر گیا تھا ۔۔۔


تو چلیں پھر ۔۔

ہاتھ میں چھری پکڑے وہ اس کے ساتھ آ کے بیٹھ گیا تھا ۔۔


ہیپی برتھڈے ٹو می ۔۔۔ 

وہ ایک ہاتھ میں چھری پکڑے اور دوسرے ہاتھ کو آگے بڑھاتا زرین کے گرد بازو لپیٹتا کہہ رہا تھا ۔ 


ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔ 

زرین کہتی آہستہ سے تالیاں بھی بجا رہی تھی ۔۔

وہ  موم بتی کو بجھاتا  چھری سے کیک کو کاٹتا  گیا ۔۔


پھربایک پیس اٹھاتا زرین کے لبوں سے لگایا ۔۔۔ اور پھر اس کا کھایا ہوا باقی کا پیس خود کھا گیا ۔۔۔


اب لاؤ میرا گفٹ۔۔۔

وہ اس کی طرف دیکھتا شرارتی آنکھوں سے اسے دیکھتا بولا تھا ۔۔ 

وہ پہلے تو حیران ہو گئی اور پھر  کچھ سمجھتے ہوئے اس کے قریب ہوتی اس کے گال پہ اپنے لب رکھ گئی ۔۔


جبکہ آریان کچھ لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا ،، اور پھر کیک کا پیس اٹھا کر زرین کے چہرے سے ہوتا گردن تک لگاتا گیا۔۔


وہ حیران ہو رہی تھی وہ کیک اس پہ کیوں لگا رہا تھا لیکن اگلے ہی پل اس کی اس کی جان نکل گئی جب وہ اس کی گردن پہ حملہ آور ہوا۔۔


وہ اس کی گردن کے دونوں طرف کیک صاف کرتا اس کی گردن کو بھی گیلا کر گیا تھا۔ 


ایک لمحے کو وہ رکا تھا ۔۔۔ 

اور اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔ 

وہ گہرے سانس لیتی مخمور آنکھیں آدھی بند کیے ہوئے تھی۔۔


چند لمحے وہ اس پری پیکر کو دیکھتا رہا ۔۔ جس کا چہرہ جذبات کی شدت کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔

وہ صوفے پہ پیچھے کو لیٹ گئی تھی اور وہ اس کے اوپر جھکتا گیا ۔۔


اور پھر اس گلابی لبوں کو قید کر گیا ۔۔ ۔

وہ اس کا ساتھ دے رہی تھی ،، لیکن اس کی شدت کے آگے وہ ہار گئی تھی ۔۔ 

وہ اس کی سانسوں کو پی رہا تھا ۔۔ اور ایک ہاتھ اس کی ٹانگوں پہ رکھے اس کی ٹانگوں کو کھول رہا تھا ۔۔۔


زرین کے ہاتھ اس کی شرٹ کے بٹن کھول رہے تھے آہستہ سے ،، 

جذبات کی آگ اسے جلا کر راکھ کر  رہی تھی ۔۔۔

وہ جل رہی تھی۔  تڑپ رہی تھی اور وہ ستم گر اسے تڑپا رہا تھا اپنی شدتوں سے ۔ 


اس کے لبوں کو آزاد کرتا وہ اس کو سانس لینے کا موقع دیے بغیر  اس کے جسم پہ موجود واحد باریک نائٹی کو اتار گیا ۔۔ 


وہ نیٹ کی برا اور انڈروئیر پہنے ہوئے تھی جس میں اس کا گوارا بدن اپنے سارے خدو خال نمایا کر رہا تھا ۔۔۔


پھر سے وہ کیک کا پیس چمچ سے اٹھاتا اس کے زرخیز سینے اور پیٹ پر لگانے لگا ۔۔ 

زرین سوچ کے ہی اس کے ساتھ اب کیا ہونے والا ہے تڑپ اٹھی تھی ۔۔ لیکن وہ اسے منع نہیں کر رہی تھی اسے اچھا لگ رہا تھا یہ سب بھی ۔۔


اس کی بیوٹی بون سے ہوتا وہ اس کے سینے پہ بنے دو پہاڑوں کے درمیان جاتا اپنے لبوں سے اسے معتبر کرتا گیا۔  

اس کے پیٹ پہ آہستہ سے نرمی سے لبوں کو رکھ رہا تھا ، اس کا بچہ اندر سو رہا ہو گا ۔۔

وہ سارے کیک کو صاف کرنے کے بعد اس کی برا کو اتار رہا تھا ۔۔۔


زرین کا سارا چہرہ لال ٹماٹر بنا ہوا تھا ۔۔ اس کی گردن اور ہاتھ بھی جذبات کی شدت سے سرخ ہو رہے تھے ۔۔۔

وہ لباس سے بے نیاز اس کے سامنے تھی ۔۔۔ 


میں نے آج تک کبھی اتنا میٹھا نہیں کھایا ۔۔ 

لیکن آج لگتا ہے میں میٹھے کی کان ہی کھا جاؤں گا۔۔۔

وہ نرم سینے پہ ہاتھ پھیرتا اس کی آنکھوں میں دیکھتا سرگوشی کر رہا تھا ۔۔ 


کمرے میں ملگجا اندھیرہ تھا ۔  جو اس حسین لڑکی کے حسن کو اور بھی پرکشش بنا رہا تھا ۔


آریان ،،، میں ۔۔

اس نے اپنے خشک ہوتے لبوں سے کچھ کہنا چاہا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ اس کے گداز  سینے پہ موجود گلابی سے نشان پہ کیک لگائے جیسے اس گلابی سے حصے کو ہی کھا رہا تھا ۔۔ 


جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ زرین کی ٹانگوں کے درمیان موجود نازک سے حصے پہ گھوم رہا تھا ۔ 


زرین اپنے ہاتھوں سے اس کی شرٹ اتارتی اس کے سینے پہ اپنے ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔ چوڑا سینا ،، کسرتی بدن ،، 

اور اس کے نازک ملائم ہاتھ ۔۔


وہ یکدم پیچھے ہٹا اور اس کی ٹانگوں کو پورا کھولتا اس  کی  تھائیز پہ انگلی سے کیک لگاتا چومنے لگا ۔۔


آگے بڑھتا وہ اس کی ٹانگوں کے درمیان اس نازک حصے کو بھی اپنے لبوں سے چھوتا زرین کو پاگل کر گیا تھا ،، 

وہ اسے شرم کے مارے پیچھے کر رہی تھی ۔۔ 


،شاید آریان کی بھی برداشت یہیں تک تھی وہ اس برہنہ حسین پری وش کو گود میں اٹھاتا بیڈ پہ لٹا گیا۔ اور خود اپنی جینز اتارتا اس پہ حاوی ہو گیا ۔۔۔


وہ جو پہلے سے ہی تڑپ رہی تھی ، اب وہ سسک اٹھی تھی ۔۔

وہ آہستہ سے آگے پیچھے ہوتا اس کی جان نکال رہا تھا ۔۔۔


کمرے میں زرین کی سسکیوں کی گونجتی ہوئی آواز آریان کو اور پاگل کر رہی تھی ۔۔ لیکن وہ خود پہ قابو پا رہا تھا ۔۔ 

وہ جنونی نہیں ہونا چاہتا تھا ۔۔ کہیں اس نازک سی لڑکی کی طبیعت ہی خراب نا ہو جائے ۔۔۔


وہ اس کے اوپر سے اتر گیا تھا ۔۔ کہیں اسے زیادہ وزن محسوس نا ہو ،۔۔

وہ نیچے لیٹتا اس اپنے اوپر آہستہ سے بٹھا رہا تھا ،، اور وہ سسکتی ہوئی بیٹھ گئی تھی ۔۔۔


وہ دو جسم ایک ہوگئے تھے ۔

سامنے میز پہ  آدھا کھایا کیک پڑا تھا ۔۔۔

میز کے پاس نیچے زرین کی نائیٹی گری تھی ۔ جبکہ صوفے پہ آریان کی شرٹ اور اس کی برا پڑی تھی ۔۔ 


وہ  کچھ دیر بعد بے حال ہوتی زرین کو آزاد کر گیا تھا ۔۔ 

اس کے ماتھے پہ اپنے لب رکھتا وہ اس کا سر اپنے سینے پر رکھ گیا تھا ۔۔۔

اگرچہ وہ ساری رات رکنا نہیں چاہتا تھا مگر زرین کی حالت دیکھتا وہ رک گیا تھا ۔۔ 


وہ اس کی محبت تھی وہ اسے درد دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔ اپنے سکون کی خاطر وہ اس کی اور اپنے بچے کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا ۔۔۔


وہ اس کے سیاہ ملائم بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا ۔۔

اور وہ اس کے سینے سے لگی سو گئی تھی ۔۔ 


کچھ دیر بعد وہ اٹھا تھا ۔ اور صوفے سے اپنی شرٹ اٹھاتا اسے کے پری پیکر کے برہنہ جسم پہ آہستہ سے پہناتا گیا۔۔


اس کا نازک جسم اسے پھر سے بہکا رہا تھا ،،، 

اس کا خود سے کنٹرول ختم ہو رہا تھا ۔۔۔


وہ اس پہ کمفر ٹر دیتا بیڈ سے اٹھ گیا۔۔۔


واش روم سے نکلتا وہ نائٹ سوٹ پہن چکا تھا ۔۔۔


وہ اس کے پاس سونے نہیں گیا تھا ۔۔ کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ وہ اپنے جذبات میں کھو کر پھر سے اس کے جسم کا اسیر ہو جائے گا ۔۔۔ نیند تو اس کی آنکھوں سے بہت دور تھی۔۔


اچانک کچھ یاد آنے پہ وہ آپنے سوٹ بیگ سے ڈائری اور پین نکالتا صوفے پہ جا بیٹھا تھا ۔۔۔ 


یہ ڈائری بہت پرانی تھی ۔۔ وہ باہر ہوتا تب جبھی کبھار دل کی اداسی ختم کرنے کے لیے اس میں کچھ لکھ لیا کرتا تھا ۔۔


سیاہ موٹی ڈائری کے صفحے پلٹتا ایک نظر وہ بیڈ پہ لیٹی خود سے بیگانہ ہوتی زرین پہ ڈالتا سنہری پین کا ڈھکن کھولتا ڈھکن کو میز پر گرا گیا۔۔


اس کے ہاتھ پین پکڑے کورے کاغذ پہ چلنے لگے۔۔


"" بہت سے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں ،، 

میں آریان خانزادہ ان میں سے ایک ہوں ،، میں منہ میں سونے کا چمچ لے کر ہی پیدا ہوا ۔۔ جتنے لاڈ اور پیار سے میں بڑا ہوا یقیناً میں ایک خوش قسمت بچہ تھا ۔۔


لیکن میں کتنا خوش قسمت تھا کہ میں اپنی ذات کے اندر بالکل تنہا تھا وہ جو سارے پل میں اپنوں کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا ،، وہ جو ساری باتیں جو میں کسی بہت اپنے سے کرنا چاہتا تھا ،، میں وہ کبھی نہیں کرسکا ۔۔۔

کیونکہ میرے پاس وہ اپنا تھا ہی نہیں ۔۔۔


باہر رہ کے پڑھنے کے ساتھ میں بہت سی بری عادتوں کا شوقین ہو گیا ۔ وہاں کا ماحول ہی ایسا تھا اور میرے گھر کا ماحول بھی کچھ ویسا ہی تھا ۔


میں شراب کے بغیر اپنا دن شروع کر ہی  نہیں سکتا تھا ،، اور میری رات ایک نئی لڑکی کے بغیر نامکمل تھی۔ 

میں نے عورت کو صرف جسم کی ضرورت کی طرح دیکھنا شروع کر دیا ۔ اور ہر عورت کے ساتھ کھیلنا اور چھوڑنا یہ مجھے بہت مزا دیتا تھا ۔۔۔


میں پاکستان واپس آ کے بھی نہیں بدلا۔   بدلنے کی ضرورت بھی کیا تھی ۔ یہاں سب ویسا ہی تو تھا ۔ لڑکیاں میرے پیچھے پاگل تھیں اور جب انہیں اعترض نہیں تھا میرے سامنے خود کو پیش کرتے تو مجھے کیوں ہوتا ۔


لیکن زندگی اچانک سے تب بدلی جب میری زندگی میں وہ لڑکی شامل ہوئی جو اس وقت میرے بیڈ پہ اپنے برہنہ وجود پہ میری شرٹ پہنے سو رہی ہے ۔ 


وہ زبردستی میری زندگی میں داخل ہوئی ۔۔   ورنہ شاید میں اس معصوم لڑکی کی معصومیت کو بھی پیروں تلے روند دیتا ۔۔


میں محبت جیسے لفظ پہ یقین نہیں رکھتا تھا ۔۔

لیکن اس کی معصومیت  ، اس کی آنکھیں ،  مجھے ایک انوکھے احساس میں جکڑتی گئیں اور میرا دل میں خود کیا سے کیا ہو گیا پتا نہیں چل سکا ۔۔

اور جب پتا چلا تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔ 

وہ کب میرے لیے اتنی ضروری ہو گئی سمجھ نہیں سکا میں ۔۔

اس کی بے اعتباری ، اس کی مجھ سے نفرت مجھے اندر سے توڑ دیتی تھی ۔


یہ جو لڑکی میرے سامنے ہے ،، اس کی محبت پانے کے لیے میں ساری دنیا سے لڑا ہوں ۔۔ میرے اپنوں سے ،، غیروں سے 

ہر کسی کو اپنے خلاف کر کے اس کی محبت کو حاصل کیا ہے اور بہت سکون حاصل کیا ہے ۔۔۔


وہ ایک لمحے کو سر کو پیچھے صوفے سے ٹکا کر آنکھیں موند گیا ۔۔ کمرے میں ٹھنڈک ہو رہی تھی ۔۔


زرین تمہیں حاصل کرنا ہی میری زندگی کا حاصل تھا ۔۔

تم سے پہلے بھی سب کچھ تھا لیکن پھر بھی میں تہی داماں تھا ۔۔ لیکن اب تم پاس ہو تو سب لگتا میری دسترس میں ہے۔۔

وہ چلتا بیڈ کے پاس کھڑا ہو کہ اسے سوتے ہوئے دیکھنے لگا تھا ۔۔۔


تم نے مجھے بدل دیا ۔۔ میں ایک جانور تھا ۔۔ وحشی تھا۔ 

تمہاری محبت نے مجھے وہ بنا دیا جس کا میں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا ،، اب تم سے محبت کرنا فرض ہے مجھ پہ آخری سانس تک ۔۔


میرا بچہ ،،، 

میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے بچے کو وہ بچپن نہیں دوں گا جو مجھے ملا ۔  میں اسے وہ سارے لمحات دوں گا جن سے میں محروم رہا ہوں ۔


وہ زرین کے پاس بیٹھا اس کے پیٹ پہ ہلکے سے ہاتھ پھیرتا خود کلامی کر رہا تھا ۔۔۔


وہ اس کے پاس لیٹ گیا تھا۔   وہ اس کی متاع جان تھی ۔۔

وہ اس کا سب کچھ تھی۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سکندر ولاء ۔۔۔


اس وقت ڈرائنگ روم میں قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔۔

ارتضی آفندی اور نورین بھی سکندر ولاء تھے اس وقت ۔۔


کھانے کے دور چل رہے تھے ۔۔ 

ارتضی اور سکندر شطرنج لگائے بیٹھے تھے ۔۔

ان کی پرانی دوستی پھر سے ایک بار واپس آ گئی تھی ۔ 

زارا سکندر ترو تازہ ہمیشہ کی طرح مسکراتی نورین آفندی سے باتیں کر رہی تھیں۔


سامنے نیوز لگی تھیں۔۔

جس پہ  وقتاً فوقتاً ارتضی اور سکندر تبصرے کر رہے تھے ۔۔


جی تو ناظرین آپ کو بتاتے چلیں کے  کچھ دن پہلے ایک نجی تقریب میں مشہور بزنس مین اور سیاست دان سکندر خان کے اکلوتے بیٹے آریان خانزادہ  کا ولیمہ پارٹی ایک بہت ہی قیمتی وینیو کے ساتھ دی گئی۔ ۔

ایک طرف آریان کی تصویر نظر آرہی تھی ۔۔  جس میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔


آپ کو بتاتے چلیں کے یہ تقریب سکندر خان کے گھر میں ہوئی جہاں ان کے قریبی جاننے والوں نے شرکت کی ۔۔


ڈی پی او ارتضی آفندی جن سے آپ اچھی طرح واقف ہیں ۔۔ جن کی کارکردگی پہ سب فخر کرتے ہیں ۔۔ ان کی اکلوتی بیٹی زرین خان سے یہ شادی طے پائی گئی۔۔


اب ایک سائیڈ پہ زرین کی تصویر دکھائی جا رہی تھی ۔۔ اس تصویر میں وہ سیاہ فراک میں تھی ۔ جس میں وہ کسی لفٹ کے پاس کھڑی تھی۔  ارتضیٰ آفندی کو یاد آگیا تھا یہ ان کی زرین سے پہلی ملاقات تھی۔  جب سکندر کو گولی لگی تھی ۔۔


شادی  ایک نجی تقریب  میں کی گئی ۔۔ 

اب نیوز کاسٹر ان کے ریسیپشن پارٹی کی تصویر ساتھ میں دکھا رہی تھیں ۔۔ 


یہ کیا میں نے صرف ایک تصویر انہیں دی تھی۔ جو ہماری فیملی فوٹو تھی ۔۔ یہ پتا نہیں کس نے ان کو پورا البم ہی دے دیا ہے۔  

سکندر صاحب حیران ہو کے بول رہے تھے ۔۔

کل سے سوشل میڈیا پہ ان کے بیٹے اور بہو کی تصویریں گردش کر رہی تھیں۔۔


مسز زارا فخریہ چہرے کے ساتھ ٹی وی پہ چلتی تصویریں دیکھ رہی تھیں ۔۔

ان کا بیٹا بہت خوبصورت تھا ۔ اور قسمت نے انہیں خوبصورت ہی بہو دی تھی ۔۔


یہ سب تصویریں انہوں نے ہی اپنی دوست کو جو کہ جرنلسٹ تھی ۔ اسے دیں تھیں ۔۔

ان کے انسٹا گرام پہ لوگ کومینٹ میں بہت تعریفیں کر رہے تھے ۔۔

دلہا دلہن ایک ساتھ بہت اچھے لگ رہے تھے ۔۔ دونوں کی جوڑی بالکل پرفیکٹ تھی۔۔ 

انسٹا پہ بہت سی ریلیز آریان اور زرین کی بن چکی تھیں ۔۔

اور یہ ان کو اچھا لگ رہا تھا ۔۔

ایک بار پھر سے سارے سوشل میڈیا پہ خان فیملی چھائی ہوئی تھی ۔۔ مسز زارا ہر پارٹی میں آج کل بھائی ہوئیں تھیں خوبصورت اور امیر  بہو۔

بہت سی ان کی دوستیں رشک کر رہی تھیں اور کچھ حسد ۔۔

زارا سکندر کی خوش بختی پہ۔۔۔

وہ نزاکت سے بال پیچھے جھٹکٹیں مسکرائیں تھیں ۔

وہ یہ بات سکندر کو نہیں بتائیں گی۔ 


کچھ لوگ کبھی نہیں بدل سکتے تھے ۔۔ ان کی فطرت میں سراہے جانا پسند تھا ۔۔ کسی ملکہ کی طرح ہر ایک پہ حکومت کرنا انہیں پسند تھا۔۔۔


لیکن ایک لمبے وقت کے بعد انہیں ایک بار پھر اپنی من پسند زندگی مل گئی تھی۔ لیکن وہ ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نا دہرانے کا بھی سبق حاصل کر چکی تھیں۔۔۔


۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اب یہاں سے بہت دور  یاٹ کے عرشے پر کھڑا وہ بہتے پانی سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔۔ ہوا سے اس کے بال  اڑ رہے تھے ۔ اور اس کے ماتھے پہ گر رہے تھے ۔۔ ۔

اس کی صاف رنگت پہ ہلکی بھوری ڈارھی اور بھورے بال بہت جچتے تھے ۔


وہ سفید شرٹ ٹراؤزر پہنے کھڑا تھا ۔

وہ سامنے دیکھتا زرین کی آمد سے بے خبر تھا ۔۔ 

وہ کچھ لمحے تو کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ 

پھر اس کے سینے پہ ہاتھ باندھتے اس کی کمر سے لگ گئی ۔۔


تب وہ چونکا ،،

اور اس کا ہاتھ پکڑتا اپنے سامنے کر گیا ۔۔

اب منظر کچھ اس طرح تھا کہ زرین کی کمر عرشے کی ریلنگ سے لگی اور اس کا سینا آریان سے لگ رہا تھا ۔۔۔

وہ بھی سفید فراک پہنے ہوئے تھی۔  جو اس کے گھٹنوں تک آرہی تھی۔  اس کی سفید نازک ٹانگیں نظر آرہی تھیں۔۔


آریان کی شرٹ کے اوپر کے بٹن کھلے تھے ۔۔ اس کے سفید سینے پہ ہلکے بھورے بال اچھے لگ رہے تھے ۔۔


تم سے اتنی محبت ہے مجھے زرین کے میں خود کو بھی بھول جاتا ہوں اکثر ۔۔

میں نے قصے کہانیوں میں پڑا تھا محبت میں ایک ایسا مقام آتا ہے جب آپ کو صرف محبوب ہی یاد رہتا ہے ،، اور بس ۔۔

مجھے لگا تھا یہ جھوٹ ہے۔۔

لیکن تم سے ملنے کے بعد مجھے ہر چیز سچ لگتی ہے ۔۔ 

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا ۔ بہت پیارے لہجے میں بولا تھا ۔۔


ہونہہ ۔۔۔ ایسا ہوتا ہے اگر ۔۔۔ 

وہ کچھ لمحوں کے لیے رکی تھی ۔۔  وہ منتظر تھا اس کی بات کے مکمل ہونے کا ۔۔


اگر محبوب میری طرف حسین اور کیوٹ ہو  تو ۔۔۔

وہ اپنے چہرے کے اطراف میں ہاتھ رکھتی بولی تھی ۔ 


وہ بے ساختہ اس کے اس انداز پہ کھل کے ہنسا تھا ۔۔

کیا ایسا نہیں ہے۔۔۔ وہ اسے ہستے دیکھ کر خفگی سے بولی تھی ۔۔


ہاں ۔۔۔ بالکل ۔۔ 

تم حسین ہو اور کیوٹ بھی ہو ۔۔

اسی لیے تو میں فدا ہو گیا ۔۔۔ورنہ میں ایسے جال میں کہاں پھنسنے والا تھا ۔۔۔


وہ اس کے سینے پہ نظریں گاڑھے بولا تھا ۔۔۔

وہ اس کی نظروں کے محور سے شرما گئی تھی ۔۔۔


اس کی فراک ہوا سے اڑ رہی تھی ۔۔۔ جسے وہ اڑنے دے رہی تھی ۔۔ جب ہوا سے فراک اوپر کو اٹھتی تو اس کی تھائیز نظر آتیں 


میں اکثر سوچتا ہوں۔۔۔

وہ اس کے اڑتے بالوں کو کان کے پیچھے کرتا بولا تھا ۔

وہ اس کے نظر آتے سینے پہ بالوں میں اپنی انگلیاں چلا رہی تھی ۔۔۔


ہمارے بچوں کے بال کس طرح کے ہوں گے ۔۔۔

تمہارے بال سیاہ  ہیں جیسے کوئی گہری سیاہ رات ۔۔۔

اور میرے ۔۔ 

وہ ایک لمحے کو چپ کر گیا تھا ۔۔ اس کی مسکراتی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔ ۔ اس کا پیٹ اب ہلکا سا محسوس ہوتا تھا ۔۔۔ایک نظر اس کے پیٹ کی طرف دیکھا تھا ۔۔


آپ کے بال ڈھلتی شام جیسے ہیں ۔۔ 

وہ اس کی گردن میں اپنی بانہیں ڈالتی بولی تھی ۔۔۔۔


تم ۔۔ 

وہ اس کی بات سن  کر کھل کے ہنسا تھا ۔۔ 


تمہیں بھی فلرٹ کرنا آگیا ہے ۔۔۔

وہ اس کی کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کرتا بولا تھا ۔۔۔


آپ سے ہی سیکھا ہے سب۔۔ جو بھی سیکھا ہے ۔۔۔

وہ اس کے گال پہ اپنے لب رکھتی بولی تھی ۔۔۔


اچھا ،،، 

وہ آگے کو جھکا زرین کو ریلنگ پہ گرا گیا تھا ۔۔۔

اب منظر کچھ اس طرح تھا کہ زرین کی آدھی کمر ریلنگ سے نیچے تھی ۔۔ اور اس کے اوپر آریان ۔۔۔


تیز چلتی ہوا ان دونوں کے بال اڑا رہی تھی ۔۔ 

آہستہ رفتار میں چلتی یاٹ ان دونوں کے رومینس کو جیسے انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔


وہ کل رات ہی کینیڈا آئے تھے ۔۔ پچھلی بار آریان یہاں اکیلا آیا تھا۔ جب زرین نے اسے کتنا کچھ کہا تھا ۔

اور اب وہ متاع جان اس کے ساتھ تھی اس کی بانہوں میں ۔۔۔


چائے پیو گی ۔۔۔

کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا وہ بولا تھا ۔۔۔


ہونہہ ۔۔ 

وہ آہستہ سے کہہ گئی ۔۔ چائے اسے بہت پسند تھی ۔اور آریان کو کافی ۔۔۔


اوکے ،، 

میں ابھی بنا کے لاتا ہوں ۔۔۔

اس کے ماتھے پہ اپنے لب رکھتا وہ سیڑھیاں اترتا نیچے گیا تھا ۔۔۔

زرین کچھ دیر تو کھڑی رہی لیکن پھر اچانک سے اسے کچھ یاد آیا ۔۔۔


او۔۔ نہیں ۔۔  

یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔

وہ جلدی سے نیچے بھاگی تھی ،، شکر تھا کہ وہ ننگے پیر تھی۔۔ بھاگنا آسان تھا۔۔


آریان کی خطرناک کوکنگ سکلز سے وہ واقف تھی۔۔۔

آخری دفعہ اسے یاد تھا جب آریان نے سارے اپارٹمنٹ کا حشر نشر کر دیا تھا ایک چائے بناتے ہوئے ۔۔ 


اب کہیں یہ یاٹ ہی نا اڑا دے وہ۔۔۔


وہ جلدی سے نیچے گئی تھی ۔۔۔

وہ سامنے کھڑا کچھ کھٹ پٹ کر رہا تھا ۔۔۔


آریان ۔۔۔۔

وہ جو آنچ ہلکی کرنے جھکا تھا اس کے آواز پہ چونک کر مڑا تھا ۔ اور چائے کا مگ لڑھکتا ہوا جا نیچے گرا تھا ۔۔۔


او ۔۔ نہیں ۔۔۔

پیچھے ہٹیں میں بناتیں ہوں چائے ۔۔


ارے نہیں میری جان چائے تو بن گئی ہے ۔۔

ایک مگ ہی تو گرا ہے ۔۔ یہ دیکھو ایک مگ اور پڑا ہے ۔۔

بتاؤ کیسی ہے ۔۔


وہ اس سیاہ مگ اس کی طرف بڑھا رہا تھا ۔۔ 


وہ مسکراتی ہوئی ایک چھوٹا سا سپ لے گئی تھی ۔۔۔


کیسی ہے۔۔

وہ اشتیاق سے پوچھ رہا تھا ۔۔


بہت اچھی بالکل آپ کی طرح ۔۔

وہ کپ نیچے رکھتی مسکراہٹ دباتی بولی تھی ۔۔


اچھا میری طرح۔ ۔

وہ چائے کا مگ پکڑتا ایک  سپ لیتا بولا تھا ۔۔


لیکن یہ کیا اگلے ہی لمحے وہ کھانستا ہوا چائے باہر نکال گیا تھا ۔۔ 


زرین کھل کے قہقہہ لگاتی ہنسی تھی۔۔۔


یہ میری طرح ہے ۔ میں اتنا بد مزا ہوں کیا ۔۔۔۔

وہ مسکراتا اس کی طرف بڑھا تھا۔ 


اور وہ پیچھے کو قدم لیتی جا رہی تھی ۔۔۔

یہ دیکھیں میرے ہاتھ اور دوبارہ کبھی چائے مت بنائیے گا ۔۔

وہ باقاعدہ ہاتھ جوڑتی کہہ رہی تھی ۔۔۔


اسی لیے تو کہتا ہوں کے کافی پیا کرو ۔

میں وہ بہت اچھی بناتا ہوں ۔۔۔ وہ میری طرح مزہ دار ہے 

وہ آنکھ دباتا مسکراتا بولا تھا ۔۔۔


اچھا وہ میری طرح مزہ دار ہے ۔۔۔

وہ اس کی بات اسی کے انداز میں نقل کرتی بولی تھی۔۔


بتاتا ہوں کس کی طرح مزیدار ہے۔۔

وہ اسے ایک ہی جست میں اپنی گود میں اٹھاتا بیڈ روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔  


زرین کی ہنسی کمرے سے باہر تک آرہی تھی ۔۔۔

دور ڈوبتا سورج ان کی محبت کا گواہ تھا ۔۔

وہ دن رات جیسے لوگ ایک دوسرے کی محبت میں پور پور ڈوبے تھے ۔۔ ۔۔

ان کی محبت ہر مشکل کو سہنے کے باوجود برقرار تھی۔۔۔

وہ دونوں مشکلات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہے تھے ۔۔

کڑے وقت میں وہ دھوپ چھاؤں جیسی لڑکی اس کا ہاتھ تھامے کھڑی رہی تھی ۔۔ 


اس کی بانہوں میں اس کا سکون تھا۔  اس کی قربت اس کا نشہ تھی۔  


زندگی میں ایک شخص کو ایسا ہونا ہی چاہیے تھا جس کی موجودگی سکون ہو اور جس کی قربت نشہ ہو،  جو کرتے ہی ہر مشکل بھول جائے ۔۔۔


زرین آریان کی انکھوں میں دیکھتی سوچ رہی تھی ۔۔۔

وہ رب کی شکر گزار تھی اس کی بنجر زمین جیسی زندگی میں وہ شخص بہار کی طرح تھا ۔

وہ بے اختیار اس کے سینے پہ سر رکھ گئی ،، 

اس نے اس کے گرد اپنی بانہیں لپیٹ دیں ۔۔۔


            اس کا سکون تھا وہ 

            اس کا نشہ تھی وہ

Hum Nasheen most Bold Urdu Novel Last Episode Part 1 by Anaiza Batool

 

#ہم_نشین
از قلم عنائزہ بتول
بولڈ اردو ناول
لاسٹ اپیسوڈ (پارٹ ون)
Hum Nasheen
Written by Anaiza Batool
Copyright owner
Novel Dot Com Official
Last Episode ( part 1)

Most Bold Urdu Novel




وہ بھاگتا ہوا ہاسپٹل میں داخل ہوا تھا ،،
سامنے ہی حاشر کے روم کے باہر اس وقت  وارڈ بوائے کسی کو سٹریچر پہ ڈال کر لے جارہے تھے ، قریب جانے پہ اس کی فرش پہ بکھرے خون سے ہوتی سٹریچر پہ لیٹے حوالدار پہ گئی تھی ،،  اس کے چلتے قدم تھم گئے تھے ،،

وہ خون میں تر تھا ،، اس کا یونیفارم خون سے سرخ نظر آرہا تھا ،، وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اس نے وہاں پہرے کے لیے کھڑے کیے تھے ۔۔
وہ اس وقت انہیں کپڑوں میں تھا جن میں وہ آریان کے نکاح میں شامل ہوا تھا ،،

وہ وہاں سے پیچھے ہٹتا روم کا دروازہ کھولتا اند داخل ہوا تھا ، اگرچہ اسے خبر مل گئی تھی کہ حاشر نے بھاگنے کی کوشش کی ہے ،، لیکن ہو سکتا تھا وہ کمرے میں ہوتا لیکن وہ کمرے میں نہیں تھا ،،

وہ وہاں سے ڈورتا ڈاکٹر کے روم کی طرف بھاگا تھا راستے میں ہی اسے سیڑھیوں کی طرف شور سنائی دیا تھا،،
اس سے پہلے کے وہ چھت کی طرف ڈوڑتا اس کی نظر نیچے اترتے انسپیکٹر علی پہ گئی ،،
اسے ہی یہاں کی سیکیورٹی کی زمہ داری دی تھی اس نے ،،

شکر ہے سر آپ آگئے ،،
وہ عثمان کی طرف دیکھتا آگے بڑھا تھا ،،

علی کیا ہے یہ سب ،
ادھر حوالدار کاشف کی لاش خون میں بھری پڑی تھی ،، اور وہ حاشر کدھر ہے ،،
کیا ہو رہا ہے یہ سب ،، تم لوگ ،،
عثمان اسے دیکھتے ہی بولنا شروع ہو گیا تھا ،،
اس کی غلطی تھی اس نے ایک نئے آئے لڑکےکو اتنی بڑی زمہ داری دے دی ،،
وہ تو پہلے ہی اوپر سے سخت پریشر برداشت کررہا تھا ، اور اب پتا نہیں کیا ہو گیا تھا

سر پلیز اس وقت ان سب سوالوں کا وقت نہیں ہے ،،
وہ حاشر اس وقت چھت پہ ہے سر ،، اور اس نے ایک چھوٹے سے بچے کو یرغمال بنارکھا ہے ،
کہتا ہے اسے یہاں سے نکالیں ورنہ وہ بچے کو گولی مار دے گا ،،
سر جلدی چلیں  وہ بچہ بیمار ہے ،،
وہ اسے مار دے گا ،،
وہ پہلے ہی ہمارے ایک حوالدار کو مار چکا ہے سر پلیز جلدی کریں ۔۔

وہ عثمان کو ساری بات بتاتا اپنے پیچھے آنے کو کہہ رہا تھا ،، اور عثمان اس کو بے انتہا غصہ آیا تھا ،،

تمہیں میں نے یہاں اس لیے کھڑا کیا تھا ،، اتنا سب ہوگیا اور تم لوگ سب ایک مجرم تک کو پکڑ نا سکے ،،

وہ غصے میں بولتا اوپر جا رہا تھا ،، وہ لوگ لفٹ استعمال نہیں کر رہے تھے پہلے ہی بھگ ڈر مچی ہوئی تھی ،  وہ مزید پبلک کو خوفزدہ نہیں کر سکتے تھے ،،

لیکن جیسے ہی وہ اوپر پہنچا ،
سامنے کا منظر دیکھ کر وہ بھی ڈر گیا تھا ،،
ہاسپٹل کی چھت پہ اندھیرا چھا رہا تھا ،، تیز ہوا چل رہی تھی ،، آسمان کالے بادلوں سے بھرا تھا ،،  جو کسی بھی وقت برسنے کو تیار تھے ۔۔

حاشر ہاسپٹل کے ڈریس میں تھا ،، اس کے سر پہ اور ہاتھوں پہ۔حتٰی کہ چہرے پر بھی چھوٹی چھوٹی بنڈیج لگی ہوئی تھیں ،،،

اس کے ساتھ کھڑا وہ کوئی سات سے آٹھ سال کا بچہ ہو گا ،، جس کی گردن میں حاشر نے اپنا ایک بازو رکھا ہوا تھا ،، اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی گن بچے کی کنپٹی سے لگا رکھی تھی۔۔

بچہ کے ہاتھ پر ڈرپس کی سوئیاں لگی تھیں ،،
وہ مسلسل رو رہا تھا ،،

سامنے کھڑے حوالدار اور انسپکٹر حاشر پہ پستول تانے کھڑے تھے ۔۔

او
میرے بھائی ،، میرے دوست عثمان تم یہاں آگئے ،،
اب جلدی سے مجھے یہاں سے باہر نکالو ،، ورنہ میں سب کو مار دوں گا ،،
ہاں سب کو مار دوں گا ،،
تمہیں بھی ۔۔۔
ہا ہا ہاں۔۔۔۔
اور قہقہ
وہ اس وقت کوئی ذہنی مریض لگ رہا تھا ،، جو کہ عثمان کو دیکھتے ہی شروع ہو گیا تھا ،،

دیکھو حاشر تم اس بچے کو چھوڑ دو،،
پھر جو تم کہو کے وہ کریں گے ،،
وہ حاشر کو بہلا پھسلا کے بچہ کو اس سے لینا چاہتا تھا ۔

نہیں پہلے ان کو کہو اپنی گن نیچے کریں سب ،،

عثمان میرے بھائی مجھے بچا لے ،،
وہ روہانسی آواز میں بولا تھا ۔۔
عثمان میں تیرا دوست ہوں یار مجھے مار مت ،،
میں نے کچھ بھی جان کے نہیں کیا ،
عثمان مجھے بچا لے ۔۔
وہ رونے لگا تھا ۔۔

وہ عثمان کے آنے سے پہلے کسی سے بھی بات نہیں کررہا تھا ،،

ٹھیک ہے ،،  وہ سب کو اشارہ کرتا بولا
یہ لو میری گن۔،،
اور یہ سب کی گن ہیں ۔۔۔
عثمان بس کسی طرح اس بچے کو چھڑوانا چاہتا تھا ۔

عثمان تھوڑا نرم پڑھ گیا تھا,
چار سال ۔۔
چار سال سے وہ ایک ساتھ تھے ،،
بہت سی اچھی یادیں بھی تھیں ۔۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید اس پہ ترس کھاتا اس کی آواز کانوں میں ٹکرائی تھی۔۔

تمہیں کیا میں پاگل لگتا ہوں ،،
حاشر قہقہ لگاتا بولا تھا ،،
پہلے میرے باپ کو چھوڑ،، پھر ایک ہیلی کاپٹر چاہیے مجھے ، پھر سوچوں گا ،،

وہ کمینگی سے بولا تھا ،،
سامنے کھڑا انسپکٹر علی مسلسل حاشر کو گولی مارنے کا اشارہ کر رہا تھا ،،
وہ جانتا تھا عثمان کے پاس ایک اور گن تھی ،،

چپ کر بے سالے ،،
کس طرح منہ کھولا ہوا ہے ،،
حاشر روتے ہوئے بچے کے منہ پہ تھپڑ مارتا بولا تھا ،،
وہ بچے کو لیے چھت کے کنارے پر کھڑا تھا ۔

عثمان کی برداشت یہیں تک تھی ۔۔
بچہ رو رو کے ہلکان ہو گیا تھا ،، 

ٹھاہ ،،
ٹھاہ ۔۔
عثمان نے بجلی کی سی تیزی سے گن نکالتے ہی دو فائر کیے تھے،
حاشر اپنا بیلنس نہیں رکھ پایا تھا ،  اور آنکھ جھپکتے ہی وہ نیچے جا گرا تھا ،،
ہاسپٹل کی سات منزلہ عمارت سے وہ پلک جھپکتے ہی نیچے گرا تھا ،،  سامنے کھڑے حوالدار نے بھاگ کر بچے کو پکڑا تھا ،،

یہ کیا ہو گیا تھا ،،،
وہ کچھ سمجھ نہیں پایا تھا ،،
حاشر کہاں گیا تھا ،،
عثمان کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں آگے بڑھتا نیچے دیکھنے لگا ،، وہ سر کے بل سڑک پہ گرا تھا ،، خون سڑک پہ پھیلا ہوا تھا ،،

وہ مر گیا تھا ،،
حاشر مر گیا تھا ،،

اس نے اپنے دوست کو مار دیا تھا ۔۔
لیکن اگر وہ اسے نا مارتا تو وہ بھی مجرم ہوتا ۔۔

نیچے اس کی لاش اٹھائی جا رہی تھی ۔۔
وہ شکست زدہ قدموں سے سیڑھیاں اترتا نیچے جا رہا تھا ۔۔

ان کی دوستی کو کسی کی نظر لگ گئی تھی ۔۔
یادیں ختم کرنا آسان نہیں ہوتا ۔۔
اس کی آنکھیں دھندلا گئیں تھیں ۔۔

منظر بدلا تھا ۔۔
وہ یونیورسٹی میں نئے آنے والے لڑکوں کی ریگنگ کر رہے تھے ۔۔۔
حاشر ان سب کے لیے برگر خرید کر لا رہا تھا ،،
اور وہ اس کی جیب خالی کر چکے تھے ۔۔
وہ  ان کو گالیاں دے رہا تھا ۔  اور وہ سب قہقہہ لگا رہے تھے

ایک اور منظر بدلا تھا ،،
ان کی لڑائی ہو گئی تھی ۔
عثمان اور ولید بہت بری طرح سے پِٹ گئے تھے ،،
جب آریان اور حاشر نے آکر ان دس لوگوں کو وہاں سے بھگایا جو انہیں مارنے آئے تھے ۔

پھر منظر بدلا ،

وہ کراچی ساحل سمندر پر بیٹھے تھے
تبھی حاشر شرارت سے ان کے اوپر پانی اچھالنے لگا ،،
اور پھر وہ سب ایک دوسرے کو پانی سے بھگو گئے ۔۔

پھر منظر بدلا تھا

وہ لڑکیوں کے ساتھ کلب میں ڈانس کر رہے تھے ،،۔
جب پولیس کا چھاپہ پڑا ۔
عثمان تب پولیس میں نہیں تھا ،،
حاشر نے سب سے پہلے پولیس کو دیکھ لیا تھا ،،
وہ بہت مشکل وہاں سے باہر نکلے تھے ۔
اور وہ چاروں بچ گئے ۔۔

وہ ہاسپٹل سے باہر آگیا تھا ۔۔
لاش اٹھا کے لے جائی جا چکی تھی ۔۔

وہ ٹوٹے دل کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرگیا ،، یہ تو طے تھا وہ گھر نہیں جاسکتا تھا آج ۔

وہ سب دوست وقت میں کہیں گم ہو گئے تھے ۔۔
حاشر نے ولید کو مارنے کی کوشش کی ،،
اگر اس کی قسمت میں زندگی نا ہوتی تو وہ آج زندہ نا ہوتا ۔
اور وہ ایک اور دوست کھو چکا ہوتا ۔۔

ولی کی ماں ،،
اس معصوم عورت کو حاشر نے اپنے راز کھل جانے کے ڈر سے مار دیا ۔۔

آریان ،،
اس کی زندگی جہنم بنا دی اس نے ۔۔

آریان کے بابا۔۔
وہ جانتا تھا اس سب کے پیچھے وہاب ہمدانی تھا ،۔
لیکن لالچ میں حاشر اتنا آگے نکل گیا کہ اسے وہ تینوں دوست نظر نہیں آئے ۔۔۔

وہ ٹھوڑی دور جا کے گاڑی روک چکا تھا ۔
سیٹ کی پشت سے  سر ٹکاٹا وہ آنکھیں بند کرگیا تھا ۔۔۔

کچھ بھی ہو وہ مجرم تھا ، اس نے اپنی ڈیوٹی کی تھی۔
اگر وہ اسے چھوڑتا دوستی کے لیے تو وہ باقی دوستوں کو خطرے میں ڈال دیتا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Zareen Pov.

میں زرین خان ،،
یا پھر زرین ارتضیٰ آفندی 

میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو ایک ایسے گھر میں پایا جہاں میری قدرو اہمیت نا ہونے کے برابر تھی
میرا وجود وہاں موجود ہر شخص کے لیے ناقابل قبول تھا ۔۔
سوائے ایک انسان جو کہ میری خالہ تھیں..
ہاں وہ میری خالہ تھیں ۔ مجھے بچپن میں ہی بتا دیا گیا تھا کہ میرے ماں باپ اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔

وہ میرا ہر ممکن حد تک خیال رکھتیں ۔
ان کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی ۔۔

میں نے جیسے ہی قدم جوانی کی دہلیز پہ رکھے بہت سی چبھتی نظریں میرے وجود کے آر پار ہونے لگیں ۔
جنہیں پہلے تو میں کم عمری کی وجہ سے سمجھ نہیں پائی ۔۔

میرا سکول ختم ہوا ۔
مجھے سکالرشپ پہ کالج میں داخلہ مل گیا۔۔
کیونکہ میں پڑھائی میں اچھی تھی ۔۔

گاؤں میں بہت سی میری دوستیں تھیں ۔۔
گاؤں میں بہت سے لڑکے جب میں بس سٹاپ پہ کھڑی ہوتی تو مجھے دیکھتے ،  کبھی کوئی میرے نزدیک کوئی خط چھوڑ جاتا۔۔
لیکن میں ان سب چیزوں سے دور رہتی تھی ۔۔
مجھے پڑھ کے کچھ بن کے ازار زندگی گزارنی تھی ۔

میری زندگی کی قیامت اس دن ہوئی جس دن وہ سایہ دار شخصیت اس دنیا سے چل بسیں ۔۔

ان کے جانے کے کچھ دن بعد ہی میری عزت اور زندگی خطرے میں پڑی ۔۔

جب میری خالہ کا شوہر جسے ساری زندگی میں نے انکل کہا وہ مجھ سے نکاح کرنا چاہتا تھا ۔۔
مجھے میری دوست نے کہا میں ان ظالموں سے دور بھاگ جاؤں یہاں یہ میری بوٹیاں نوچ لیں گے اور میں نے ایسا ہی کیا ۔۔

بھاگتے ہوئے میں ایک ایسے شخص کی زندگی میں داخل ہو گئی جو خطرناک تھا ،، ظالم تھا ،، بے رحم تھا ،،
ستمگر تھا۔۔

اس نے میری ذات کا بھرم تو رکھ لیا مجھ سے نکاح کر کے ، لیکن اس نے مجھے ایک ایسی زندگی سے متعارف کروایا کہ مجھے خود سے ہی نفرت ہونے لگی ۔۔

وہ ہر رات میرے جسم کے بخیے ادھیڑتا ، ہر رات میرے جسم کو روندتا ، ہر رات میرے جسم کو کسی بے جان چیز کی طرح استعمال کرتا ،،

اور  کب وہ شخص میرے زندگی کا اہم حصہ بن گیا مجھے پتا نہیں چلا ۔۔ اس کی قربت جو مجھے کراہیت اور نفرت کا احساس دلاتی تھی ، کب مجھے سکون دینے لگی میں یہ جان نہیں سکی ۔
اس کا جنون مجھے اچھا لگنے لگا ، اس کی شدتیں میری ضرورت بنتی گئیں ،، اور میں اس کی محبت میں ڈوبتی گئی ۔۔

آریان خانزادہ ۔۔
وہ شخص اپنے نام کی طرح ہی خوبصورت تھا ،،۔ مغرور تھا ،
ستمگر تھا ، میرا شوہر تھا ۔۔  میری ذندگی تھا ۔۔

میں محبت کے جذبے سے نا آشنا تھی اس نے مجھے اس جذبے سے متعارف کروایا ۔۔
میں خود کو غیر ضروری اور کمتر سمجھتی تھی ، اس نے اپنی محبت سے مجھے میری قدرو قیمت کا احساس دلایا ۔۔

اس کے میری زندگی میں آنے کے بعد مجھے سب مل گیا ، جس کی مجھے حسرت تھی۔۔
زرین خان مکمل ہوگئی تھی۔  آریان خانزادہ سے جڑنے کے بعد ۔

ارتضی آفندی میرے بابا ۔۔
مجھے بتایا گیا تھا میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے
ہر لڑکی کی طرح میں بھی اپنے ماں باپ سے ملنا چاہتی تھی ، تحفظ محسوس کرنا چاہتی تھی ۔۔

یہ بھی مجھے آریان خانزادہ کی وجہ سے نصیب ہوا ۔۔
میں نے باپ کی محبت حاصل کی ۔۔
ہر لڑکی کی طرح میرا بھی خواب تھا شادی کرنا ۔۔
دلہن بننا ۔۔
سجنا ، سنورنا ۔۔

مجھے لگا تھا شاید میں کبھی دلہن نہیں بن پاؤں گی ۔ کیونکہ بیوی تو میں بن گئی تھی ۔۔

لیکن مجھے میرے بابا نے دلہن کے روپ میں ایک بار پھر آریان خانزادہ کے سپرد کر دیا ۔۔
وہ  جو ساری دنیا سے میرے لیے لڑا ہے
وہ جو میرے لیے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتا ۔۔
وہ جو مجھے ہر چیز سے زیادہ چاہتا ہے ۔۔
وہ جو میری محبت ہے ۔۔
ہاں وہ میری محبت ہے۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ۔۔

میں زرین ارتضیٰ آفندی آج سے ایک بار پھر زرین  خان ہوں ۔۔
آریان خانزادہ کی بیوی ۔
خان فیملی کی بہو ۔ ۔
میں ہوں  " زرین خان "

مجھے وہ سب ملا جس کی مجھے چاہت تھی۔

میں اس وقت آریان خانزادہ کے کمرے میں اس کی سیج پر بیٹھی ہوں۔
سکندر ولاء میں میرا استقبال آج بہت شاندار ہوا ۔۔
کیونکہ میں اس گھر کے اکلوتے بیٹے کی محبت ہوں۔۔

یہ کمرہ اتنا خوبصورت ہے ۔۔
اور سامنے لگا  پورٹریٹ اس سے بھی زیادہ حسین ۔۔۔
پورٹریٹ میں نظر آنے والا شخص بہت خوبصورت ہے۔
صاف اجلی رنگت۔
براؤن بال ۔۔
ہلکی داڑھی ، اور مونچھیں ۔۔

یہ شخص میرا تھا ۔۔
اس شخص کو مجھ میں کیا نظر آیا جو میرے لیے دنیا تیاگ دی ۔۔
میں اکثر یہ سوچتی ہوں ۔۔

میرا دل زور سے دھڑک رہا ہے کیونکہ کمرے کے باہر قدموں کی آواز آرہی ہے ۔۔
اس ستمگر کے قدموں کی چاپ ۔۔۔۔

شاید کھڑکی کے باہر تیز بارش ہو رہی تھی ۔۔
کمرے میں سردی ہو رہی تھی اے سی کی وجہ سے۔۔

❣️❣️❣️

دروازہ کھلا تھا اور  مسکراتا ہوا وہ اندر داخل ہوا تھا ۔۔

وہ سامنے بیڈ پہ ہلکا سا گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی۔۔
واسکٹ اتارتا وہ اس کے سامنے بیڈ پہ جا بیٹھا تھا ۔۔

اس کے گھونگھٹ کے اس پار سے ہلکا چہرہ نظر آرہا تھا ۔۔
وہ اسے کچھ دیر تک دیکھتا رہا  ،، گود میں رکھے سفید ہاتھ جن پہ مہندی کی کمی تھی ۔

پھر اچانک سے تھوڑا آگے بڑھا اور اس کا گھونگھٹ پیچھے کو کر دیا ۔۔
کتنی دیر تک وہ اسے دیکھتا رہا ۔۔
اور وہ نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔۔
وہ نروس ہو رہی تھی ۔۔ اگرچہ وہ اس کے ساتھ پہلے سے رہ رہی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اس سے نروس ہو رہی تھی ۔

اچھی لگ رہی ہو ۔۔
اتنی اچھی کے میرا خود پہ کنٹرول ختم ہو رہا ہے ۔۔
وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے بولا تھا ۔

وہ جیب سے سرخ رنگ کا کیس نکال رہا تھا ،،
زرین کی آنکھیں کھبی اٹھتیں اور کبھی جھک جاتیں ۔۔۔

وہ قمیض شلوار کم پہنتا تھا ، اسی لیے آج وہ سفید قمیض شلوار میں بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔
وہ ابھی بھی اس کے ہاتھوں کو تھامے ہوئے تھا ۔۔

میں نے تمہیں اب تک بہت تکلیفیں دی ہیں ۔۔
میں نے تمہارے ساتھ ظلم کیا ۔۔
زبردستی تمہیں اپنے ساتھ رکھا ۔۔
وہ دن جب ہم پہلی دفعہ ملے تھے ۔

وہ ایک لمحے کو رکا تھا ۔۔
اس کے بائیں ہاتھ کی تیسیر انگلی میں وہ  گہرے نیلے رنگ کے ہیرے والی  انگوٹھی پہنا رہا تھا جس کے اردگرد سفید ننھے ہیرے جڑے تھے ۔۔

اس کے سفید مخروطی انگلیوں میں انگوٹھی زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی یا اس کی انگلیاں وہ یہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا ۔۔۔

انگوٹھی کی چمک آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔
زرین کتنے لمحوں تک انگوٹھی کو دیکھتی رہی۔۔
وہ انگوٹھی یقیناً بہت قیمتی تھی۔ 

تب میں ایک جانور تھا ۔۔
یا اس سے بھی بدتر ۔۔۔
شراب کے نشے میں دھت ہو کر ،، دوستوں کے ساتھ ناجانے کیا کرتا رہتا تھا ۔

اس رات جب تم مجھے ملیں ،،

آریان ۔۔
پلیز ،، جو ہوا اسے بھول جاتے ہیں ہم۔۔
میں بھی کوشش کرتی ہوں آپ بھی ۔۔۔
وہ دیکھ رہی تھی وہ یہ سب بتاتے کتنا شرمندہ نظر آرہا تھا ۔۔

نہیں اگر آج نہیں یہ سب میں نے کہا تو شاید کبھی نا کہہ سکوں ۔۔  مجھے پتا ہے یہ سننا تمہارے لیے بہت مشکل ہے لیکن زرین آج سے ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں ۔۔
اس لیے مجھے مت روکو ۔۔۔

وہ اب بھی اس کے ہاتھوں کو پکڑے ہوئے تھا۔۔
کمرے میں اے سی کی وجہ سے اچھی خاصی ٹھنڈک تھی لیکن وہ دیکھ سکتی تھی اس کے ماتھے پہ پسینے کی چند بوندیں۔۔
یہ سب ان دونوں کے لیے ہی مشکل تھا ۔۔

میرا بچپن ہر اس بچے کی طرح گزرا جو ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتا ہے ۔۔ میرے ماں باپ نے مجھے مہنگے سکول ۔۔اکیڈمی۔
ہاسٹل میں بھیجا ۔۔
جہاں میرے لیے ایک منٹ بھی خالی نہیں ہوتا تھا ۔۔
میں جب بھی گھر جاتا تو میرا دل کرتا کہ مجھے بھی اس طرح سے مام پیار کریں ، جس طرح میں بچوں کو دیکھتا تھا ۔۔
میں ڈیڈ کے ساتھ پکنک پہ جانا چاہتا تھا ۔۔
مام۔۔ ڈیڈ کے ساتھ سمندر پہ جانا چاہتا تھا ،۔ریت کا گھر بنانا چاہتا تھا ۔۔

لیکن میں جب بھی گھر آتا ۔۔۔
میرے ماں باپ یا تو مصروف ہوتے اس لیے گھر میں ہی نا ٹھہرتے یا پھر ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے ۔۔
اسی طرح میں بڑا ہو گیا ۔۔

اور صحیح غلط کا فرق بھول گیا ۔۔
وہ خاموش ہوا تھا۔۔ یا پھر اس کے ماضی کا درد اسے یاد آیا تھا ۔

وہ بغور اسے سن رہی تھی۔۔
پہلی بار وہ اتنا کھل کیے اپنے بارے میں بتا رہا تھا ۔۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس رات ۔۔۔۔
میں تب صرف ایک بھوکے مرد کی طرح تمہارا جسم حاصل کرنا چاہتا تھا ۔۔

ایک ایسا مرد جو شراب کے نشے میں دھت تھا ۔۔
مگر شاید تم نے اس طرح میری زندگی میں شامل ہونا تھا ۔۔
ورنہ ایک نشے میں دھت مرد کو روکنا آسان نہیں ہوتا ۔۔

مجھے نہیں پتا کہ وہ کونسی طاقت تھی جس نے مجھ سے نکاح کے وہ بول بلوائے۔۔۔ اور ہمارا رشتہ جائز بن گیا ۔۔
ورنہ ۔۔۔

وہ کچھ دیر رکا تھا۔۔

زرین کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔۔
وہ رات اس کی زندگی کی سب سے بری رات تھی شاید ۔

لیکن تم نے پتا نہیں کتنی دعائیں کیں تھیں ۔۔۔ جو قدرت تم پہ مہربان  تھی۔۔
وہ طنزیہ ہنسا تھا ۔۔
پتا نہیں قدرت تم پہ مہربان تھی یا مجھ پہ مجھے یہ ۔۔
جو تم اچانک سے میری زندگی میں داخل ہوگئیں ۔۔۔

میں نے سنا ہے کہ نکاح عورت کے قدموں کو صرف اس کے شوہر تک قید کر دیتا ہے ۔۔ ایک زنجیر کی طرح ۔۔

لیکن اس نکاح نے میرے پیروں میں زنجیریں ڈال دیں۔۔
اس رات کے بعد تم نا چاہتے ہوئے بھی میرے دل و دماغ پہ چھائی رہتیںں تھیں۔۔۔
اس  سے تنگ آکر میں اپنی پرانی گرلفرینڈ کی طرف لوٹ گیا۔۔
تمہیں بھلانے کی خاطر ۔۔

لیکن تمہارے علاہ مجھے کوئی دوسری لڑکی ،، کوئی عورت اچھی نہیں لگتی تھی ۔۔
میں نے بہت دفعہ کوشش کی اپنی پرانی زنگی میں لوٹنے کی اور تمہیں چھوڑنے کی ۔۔
لیکن مجھے لگا کہ شاید اب میں زندہ ہی نا رہ سکوں ۔۔

وہ پھر سے چند لمحوں کے لیے رکا تھا ۔۔
اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔۔
وہ اپنی آنکھوں میں آنسو لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔
کچھ دیر وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔۔

میں جب بھی آنکھیں بند کرتا تو تمہاری یہ آنکھیں میرے سامنے آجاتیں۔۔
پھر اس کے بعد میں کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا تھا۔ 

جس رات میں نے تم پہ ہاتھ اٹھایا ۔۔
اس رات میں اندر سے بہت ڈسٹرب تھا ۔۔
میں تمہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔۔
میں لڑکیوں کی زنجیریں اپنے قدموں میں نہیں باندھنے والا انسان تھا۔۔

میری زندگی کے سب سے برے دن تھے وہ۔۔
میرا دوست لا پتا تھا ۔۔
شک تھا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہو گا ۔
اور اس کے قتل کا الزام مجھ پہ تھا ۔۔
اور دل و دماغ میں ایک جنگ تھی ۔۔
تمہیں لے کر

لیکن اگلی صبح جب میں تمہیں لے کر مری گیا تو میں سوچ چکا تھا ۔
کہ تمہیں نہیں چھوڑوں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔۔
اور پھر سب سے مشکل تھا تمہارا بھروسہ جیتنا ۔۔
تمہاری محبت پانا۔۔
تمہیں حاصل کرنا ۔۔ تمہاری مرضی سے۔  تمہاری خوشی سے۔۔

تمہارا مجھ سے نفرت کرنا  میرے دل کو بہت تکلیف دیتا تھا ۔۔
تمہارا مجھ پر بھروسہ نا کرنا مجھے ہر پل کسی تازیانے کی طرح لگتا تھا ۔
ایسا ہوتا ہے جب ہم کسی سے بے پناہ محبت کریں اور وہ ہمیں دیکھنا پسند نا کرے۔۔

اور پھر شاید میری کوئی نیکی کام آگئی ۔
میں نے تمہاری محبت اور بھروسہ حاصل کر لیا۔۔
اگرچہ  یہ بہت مشکل تھا ۔۔

اس لیے میں چاہتا ہوں اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دو۔
اور میں پوری کوشش کروں گا تم ماضی کے وہ سیاہ دن بھول جاؤ۔۔

آریان کی انکھوں میں ہلکے سے آنسو چمکے تھے ۔۔

میں تو کب کا آپ کو معاف کر چکی ہوں۔۔
اب تو میں وہ سب یاد بھی نہیں کرنا چاہتی ۔۔
میں باقی کی زندگی آپ سے محبت کرتے ہوئے گزارنا چاہتی ہوں۔۔
وہ آریان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لبوں سے لگا کر بولہ تھی ۔۔
سامنے بیٹھا شخص دل و جان سے قبول تھا اسے۔

وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔
اس کی طرف دیکھا تھا۔ ۔
وہ حسین لڑکی ،،  اس کے دل میں رہتی تھی ۔۔
جو اس کی بیوی تھی۔ ۔ جو اسے وارث دینے جا رہی تھی۔۔

کیا دیکھ رہے ہیں ۔۔
کافی دیر وہ اسے دیکھتا رہا ۔۔۔تو اس نے پوچھ لیا ۔۔

اب تو نہیں بھاگو گی۔۔
مجھے پتا ہے تم مجھ سے دور بھاگنے کے لیے سو منصوبے بنا چکی تھی ۔۔
وہ شرارت سے مسکرایا تھا ۔۔

وہ اسے خاموش نظروں سے دیکھتی رہی چند لمحے
پھر آہستہ سے بولی۔۔

میں ڈر گئی تھی۔۔
وہ کچھ پل رکی تھی۔۔ آریان کے ہاتھ کو اپنے نرم۔سینے پہ دل کے مقام پہ رکھا تھا ۔۔

میں ڈر گئی تھی ۔۔  جب  اپ نے مجھ سے بات نہیں کی۔
میں ڈر گئی تھی جب مجھے اغواہ کیا گیا   ۔۔
اور تب جب مجھے لگا میری عزت محفوظ نہیں رہے گی ۔
مجھے لگا کے میں آپ کی امانت میں خیانت کر دوں گی۔

میں ڈر گئی تھی کہ شاید میں ہمارا بچہ کھو دوں۔۔۔
آپ کو گولی لگتی تو
اس سے کچھ بولا نہیں گیا تھا آواز رندھ گئی تھی ۔

آریان نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا ۔۔
وہ اس کے سینے پہ سر رکھے رو دی تھی ۔
آپ کو ہوش نہیں آرہا تھا تو مجھے لگا کہیں میں آپ کو ہی کھو نا دوں۔۔

میں تمہیں چھوڑ کے کیسے کہیں جا سکا ہوں ۔
مجھے معاف کر دو میں نے تمہیں اتنا زیادہ تنگ کیا ۔۔
وہ اسے گلے سے لگائے اپنے لبوں سے اس کے چہرے کو چوم رہا تھا ۔۔

زرین رونا بند کر چکی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں کھو رہے تھے ۔۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا اس کی جیولری ایک ایک کر کے اتار رہا تھا ۔۔۔
جبکہ زرین اس کی قربت میں خود کو سونپ چکی تھی ، وہ آنکھیں بند کر چکی تھی ۔ اس کا سب کچھ اب سے وہی شخص تھا ۔۔۔

وہ جو خود کو روکے ہوئے تھا اب بہک گیا تھا ۔۔
اور اس کی جیولری اتارتا اس پہ جھک گیا تھا۔  اس کے لبوں کو احتیاط سے نرمی سے چوم رہا تھا ۔۔ وہ بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی

وہ اس کے بالوں کو آزاد کر رہا تھا ۔۔ آور دوسرے ہاتھ سے وہ کمرے میں موجود لائٹ کو بند کر گیا تھا ۔۔۔ اب صرف ایک لیمپ چل رہا تھا جس کی ہلکی روشنی ان کو ایک دوسرے کے اور قریب کر رہی تھی ۔۔۔

وہ اس کے لبوں کو آزاد کرتا رکا تھا ۔
اور اپنی قمیض اتارتا سائیڈ پہ رکھ رہا تھا ۔۔

وہ اس کی گردن پہ اپنے لبوں سے نشان چھوڑ رہا تھا ۔۔
زرین کے ہاتھ اس کی کمر پہ اور اس کے بالوں میں چل رہے تھے ۔۔

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔۔
شاید ایک چھپی ہوئی اجازت تھی آگے بڑھنے کی ۔۔
وہ اسے الٹا لیٹاٹا اس کی گردن سے بال ہٹاٹا اپنے گرم لبوں کو رکھ گیا۔ 
زرین کی جان نکل گئی تھی ۔۔ ابھی تو اس نے کچھ کیا بھی نہیں تھا ۔۔

وہ اپنے لبوں سے اس کی کمر پر چلتا ،، دانتوں سے اس کی مہرون میکسی کی زپ کھول رہا تھا ۔۔ اندر سے دودھیا بدن اس کے سامنے تھا۔

اس کی برا کے سٹرپ نظر آرہے تھے ۔۔ وہ اس کو اس بھاری بھرکم میکسی سے آزاد کر گیا تھا ۔۔

اب وہ صرف ایک برا میں اور ٹراؤزر میں تھی۔۔
اس کے نرم ابھار قید میں تھے ۔۔ جنہیں وہ آزاد کرنے کے لیے بےچین تھا ۔۔

کچھ لمحے وہ اسے گہرے سانس لیتا دیکھتا رہا ۔۔
پتا نہیں وہ اتنی خوبصورت کیوں لگتی تھی اسے کے وہ اسے دیکھتا ہی پاگل ہو جاتا تھا ۔۔۔

زرین نے اسے خود پہ محسوس نا کر کے آنکھیں کھولیں تو وہ اس کے سامنے بیٹھا مخمور آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔

زرین اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈال کر اسے اپنے اوپر گرا گئی ۔۔ اور وہ اس کے جسم کی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگا ۔۔

جبکہ وہ اس کے چہرے کو اپنے نازک لبوں سے چوم رہی تھی ۔۔
چہرے سے ہوتی وہ اس کی گردن پہ موجود اس ہڈی پہ اپنے لب رکھ گئی جو اس کے بولنے پہ اسے اچبی لگتی تھی ۔۔۔

آریان اس سے زیادہ کنٹرول نہیں کر سکتا تھا ۔۔ وہ اس کا ٹراؤزر بھی اتار گیا۔  اب وہ صرف دو لباس میں تھی ۔۔

وہ اس کی آنکھوں سے ہوتا اس کے نرم سینے پہ جا پہنچا ۔۔
اس کے نرم ابھار جو قید تھے انہیں اپنے لبوں سے چوم رہا تھا ۔۔
اس کا دودھیا بدن اس کی کمزوری تھا ۔۔
وہ ایک بار پھر اسے الٹا کرتا اس کے ابھاروں کو آزاد کر گیا تھا ۔۔

ایک حسیں منظر اس کے سامنے تھا ۔
اس کے سفید نرم ابھاروں پہ نظر آتیں خون کی وہ باریک سی وینز جو کے آگے جا کے ختم ہو جاتیں تھیں ۔ اس کے ابھاروں پہ لگے وہ گلابی سے نشان ۔۔۔  اور وہ گہرے سانس لیتی اسے پاگل کر رہی تھی ۔

وہ اس پہ جھک گیا تھا ۔۔ نرمی سے وہ اس کے گلابی نشان کو لبوں میں لے گیا ۔۔

وہ ڈر رہا تھا کہیں بچے کو کچھ نا ہو جائے اس لیے نرمی سے احتیاط سے وہ اسے چھو رہا تھا ۔۔ کسی کانچ کی گڑیا کی طرح وہ اس کا خیال رکھ رہا تھا ۔۔

آج اس کے ہر عمل میں نرمی تھی ۔ احتیاط تھی۔۔
وہ اس کی متاع جان تھی ۔۔

وہ خود کو لباس سے آزاد کرتا اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا تھا ۔۔

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا شاید اجازت لے رہا تھا ۔۔
جبکہ زرین بن پانی کی مچھلی کے جیسے تڑپ رہی تھی ۔۔

وہ اسے خود پہ کھینچ رہی تھی ۔۔
وہ اسے خود میں اتارنے کے لیے بیتاب تھی۔۔

اور پھر آہستہ سے وہ خود کو اس میں اتار گیا ، ایک سکون کی سانس زرین کے لبوں سے خارج ہوئی ۔۔
کہاں وہ اس کی قربت سے نفرت کرتی تھی اور آج وہ خود اس کی قربت کے لیے پاگل ہو۔رہی تھی۔۔

وہ آہستہ آہستہ سے اس اندر تک جا رہا تھا ۔۔
دونوں کے جسم مل گئے تھے ۔۔ ان کی زندگی ان کی محبت مکمل تھی۔۔

وہ رات گہری ہونے کے ساتھ ایک دوسرے سے مزید نزدیک ہو رہے تھے ۔۔

بارش تیز ہو گئی تھی ۔۔ گرمی کا زور ٹوٹ گیا تھا ۔۔ لیکن کمرے میں وہ دونوں وجود پسینے سے تر تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔        

اگلی صبح وہ اس کی بانہوں میں قید تھی جب اس کی آنکھ کھلی ۔ وہ دونوں لباس سے آزاد تھے ۔۔

وہ آہستہ سے اٹھی تھی ۔۔ اس جان سے عزیر شخص کے ماتھے پہ اپنے لب احتیاط سے رکھتی وہ چادر اپنے گرد لپیٹیتی کپڑے لیتی فریش ہونے چلی گئی ۔۔

وہ واپس آئی تو وہ اٹھ چکا تھا ۔۔۔
اسے اپنی بانہوں میں بھرتا اس کے بالوں کی خوشبو اپنے اندر اتارتا ایک بار پھر ںہک رہا تھا ۔۔۔

وہ جلدی سے پیچھے ہٹی تھی ۔۔

آپ کے جا کےفریش ہو جائیں ۔۔
دس بج رہےہیں سب کیا سوچیں گے۔۔

یہی سوچیں گے کہ ہم پیار کررہے ہیں ۔۔
وہ اس  لبوں کو ایک انگلی سے چھوتا اس کے سینے پہ آکے رکا تھا ۔۔۔

تم ہر رات مجھے پہلے سے زیادہ حسین لگتی ہو۔۔
جتنی دفعہ تمہارے نزدیک آتا ہوں اتنی دفعہ لگتا ہے پہلی بار تمہیں چھو رہا ہوں ۔۔

وہ اس کے اور اپنے عکس کو مرر میں دیکھتا کہہ رہا تھا ۔۔

تبھی دروازے پہ دستک ہوئی تھی ۔۔۔

آریان ۔۔۔
ناشتہ کے لیے آجاؤ ۔۔
آج تو سب ایک ساتھ نوشتہ کر لیں ۔۔۔

ٹھیک ہے آرہے ہیں ۔۔۔
وہ مسز زارا کو جواب دیتا بولتا واش روم کی طرف بڑھ گیا تھا اور وہ تیار ہونے لگی تھی ۔۔

تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے تھے ۔۔
زرین گلابی رنگ کے ایمبرائیڈری ڈریس میں تھی ۔۔ کندھوں پر بال کر رکھے تھے ۔۔ دوبٹہ کو اچھی طرح سامنے پھیلا رکھا تھا ۔۔
رات کے پیار ہے گہرے نشان چھپ چکے تھے ۔۔

جبکہ آریان اپنے پرانے سٹائل میں ہی تھا ۔۔
ٹی شرٹ اور جینز میں وہ ہمیشہ کی طرح اچھا لگ رہا تھا

ایک خوشگوار ماحول میں ناشتہ ہو رہا تھا ۔۔
ملازم ایک طرف کھڑے  کسی چیز کی ضرورت پہ مسز زارا سکندر  کے اشارے کے منتظر ۔۔

میں سوچ رہی ہوں کہ ہم ایک گرینڈ ریسیپشن کر لیتے ہیں ۔۔
شادی تو ہم کر نہیں سکے ۔۔
نا میں کوئی تیاریاں کر سکی۔
مسز زارا کانٹے سے فرائی انڈا کھاتی بولیں تھیں ۔۔ وہ اس وقت مکمل تیار تھیں ، سیاہ سلیو لیس ٹاپ پہنے ، سنہری بالوں کا جوڑا بنائے ہوئے تھیں ۔۔ کانوں میں موٹے موٹے ٹاپس ان کے چہرے کو حیسن بنا رہے تھے ۔۔

ہاں ٹھیک ہے ۔۔
میرے بھی دوست ہیں ، جس جس کو پتا چلے گا وہ اعتراض کرے گا ۔۔

ایک ریسیپشن پارٹی رکھ لیتے ہیں ۔ کیوں آریان تمہارا کیا خیال ہے
سکندر صاحب بھی بولے تھے ۔
وہ آریان کے جواب کا انتظار کر رہے تھے ۔۔
جو اس طرح ناشتہ کر رہا تھا جیسے آخری بار سینڈوچ کھانے کا ملا ہو۔۔

آرام سے کھا لو ۔۔ یہاں سے کچھ بھاگ کر نہیں جائے گا۔
سب  چیزیں بے جان ہیں ۔۔
تمہاری بیوی کی سوچتی ہو گی تم ایسے کھاتے ہو ۔۔
مسز زارا ناگواری سے بولیں تھیں اور ایک نظر ملازمین پہ ڈالی تھیں وہ یہ سب تماشہ دیکھ رہے تھے ۔۔

ہمارے پاس ریسیپشن کے لیے ٹائم نہیں ہے دو دن بعد ہم آسٹریلیا رہے ہیں ۔۔

میری ایک بزنس میٹنگ  ہے اور اس کے بعد ۔۔۔
اس کی بات اُدھوری رہ گئی کیونکہ مسز زارا بھول پڑیں ۔۔

تم لوگ اپنا ہنی مون کے لیے آسٹریلیا جا رہے ہو ۔۔

نہیں آسٹریلیا صرف میں میٹنگ کے لیے جا رہا ہوں اس کے بعد ہم ورلڈ ٹور کے لیے جائیں گے شاید ایک مہینہ یا اس سے زیادہ ۔۔

وہ اب نیپکین سے منہ صاف کر رہا تھا ۔۔

ورلڈ ٹور ۔۔
سکندر صاحب حیرانی سے بولے تھے ۔۔

جی ،، ورلڈ ٹور
موبائل پہ بیپ ہوئی تھی ،  عثمان کا میسج تھا ۔
اسے عثمان سے ملنے جانا تھا وہ اور ولید فارم ہاؤس آرہے تھے ۔۔  وہ وہاں سے اٹھ گیا تھا ۔۔

زرین کو مسز زارا نے روک لیا تھا ۔۔ وہ اس کو لے کر گھر دکھا رہی تھیں ۔۔ اور پھر اسے لے کر پارلر چلی گئیں تھیں ،،
ان کی بہو کو پارٹی میں سب حسین لگنا چاہیے تھا ۔۔

  ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ منظر ایک بیڈروم کا تھا ۔۔
کمرے میں ملگجہ اندھیرہ تھا۔
پردے گرے ہوئے تھے ۔۔
دو وجود نیم برہنہ انداز میں ایک دوسرے سے چپکے سو رہے تھے ۔
ان کی نیند میں خلل فون کال سے ہوا ۔۔

بمشکل آنکھیں کھولتا ولید اٹھا تھا
اور فون کان پہ لگایا تھا ۔۔

ہوں۔۔
بمقابل کی بات سنی تھی ۔۔۔

ٹھیک ہے آجاؤں گا۔۔

ہوں ،، اچھا ابھی آتا ہوں۔۔
یقیناً دوسری طرف والا انسان سمجھ گیا تھا وہ سویا اٹھا تھا

فون بند ہو چکا تھا ۔۔

کون تھا ۔۔
آئزہ بھی اٹھ چکی تھی ،،

عثمان تھا ،،
کوئی ضروری بات ہے اس لیے بلا رہا ہے ،،

اتنی صبح ۔۔۔
آئزہ کہتی ولی کی گود سے لیٹ گئی تھی ۔۔
ولید جو کہ صرف شارٹس پہنے ہوئے تھا ۔۔

ولید نے اس کی طرف دیکھا ۔۔

سیاہ نائٹی اس کے صحت مند جسم کو چھپانے میں ناکام تھی ۔۔

نائٹی بمشکل اس کے کولہوں سے نیچے آرہی تھی ۔۔
اس کا سینہ نائٹی سے باہر نظر آرہا تھا ۔۔

ولی ۔۔

ہوں ۔

مت جاؤ نا۔۔
وہ ولی کی گردن میں ہاتھ ڈالے کہہ رہی تھی ۔۔

دل تو نہیں چاہ رہا لیکن  جانا پڑے گا ۔۔

وہ اس کے لبوں کو چومتا واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔

کل رات وہ آریان کے نکاح سے واپس آئے تھے۔۔
کل کی رات بہت حسین تھی ۔۔
آئزہ یاد کرتی آنکھیں بند کر گئی تھی ۔۔
اس کی انتہا کے خوبصورت منظر یاد کر کے ہی وہ پرسکون ہو رہی تھی ۔۔

اتنے عرصے بعد اس کی زندگی نارمل ہوئی تھی ۔۔
ورنہ وہ تو بھول ہی گئی تھی جینا کسے کہتے ہیں ۔۔
حاشر کے بہکاوے میں آکر وہ اپنا سب کچھ گنوانے جا رہی تھی ۔۔

لیکن خدا کا شکر تھا وہ اپنی زندگی ، اپنی محبت کی طرف لوٹ گئی تھی۔

سامنے تیار ہوتے ولید کو دیکھ کر وہ سوچ رہی تھی۔

گھر کب آؤ گے ولی۔۔
وہ بیڈ سے اترتی اس کے پاس چلی گئی تھی ۔۔

یہ تو وہاں جا کے ہی پتا چلے گا۔
وہ سامنے مرر میں دیکھتا بولا تھا ۔۔

لاؤ میں لگاتی ہوں ۔
وہ شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا ۔۔
جب وہ اس کے آگے آتی بولی تھی ۔۔

وہ دونوں اپنی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے ۔۔
ان دونوں کا ساتھ ہی ایک دوسرے کے لیے سب کچھ تھا ۔۔
وہ اسے پیار کرتا چلا گیا تھا ۔
اور وہ دروازہ بند کرتی  مسکراتی ہوئی اندر کی جانب چل دی۔۔
اندر شانزے ناشتہ بنا چکی تھی ۔۔ کل رات وہ یہی ٹھہری تھی ۔۔  وہ جانتی تھی آئزہ جتنی سست ہے وہ ناشتہ بنانے کہاں اٹھنے والی تھی ۔۔

عثمان کے کہنے پر وہ ان کے گھر ٹھہر گئی تھی ۔۔
تھوڑی دیر تک وہ اسے لینے آنے والا تھا ۔۔
پھر وہ ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے جانے والے تھے ۔
اب اس کی زندگی میں اس کیا بچہ بھی تھا ۔

وہ ناشتہ کرنے لگی تھی۔۔۔ اس کی چھوٹی سی بہن کب بڑی ہوئی اور کب اپنی الگ دنیا بسانے کے قابل ہو گئ پتا ہی نہیں چلا تھا ۔۔

وہ خوش تھی اسے ولید کے ساتھ دیکھ کر ۔
وہ دونوں ایک محبت بھری زندگی گزار رہے تھے ۔۔
وہ پرسکون ہو کر ناشتہ کرنے لگی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔    ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کل رات سے گھر نہیں گیا تھا ۔۔
حاشر کو سرد خانے منتقل کر دیا تھا۔
وہاب ہمدانی کو کچھ دیر پہلے اس کے بیٹے سے ملانے پولیس وین میں لے جایا گیا تھا ۔
دلاور کہاں غائب تھا ابھی تک پتا نہیں چل سکا تھا ۔۔

ابھی وہ آریان کے فارم ہاؤس پہ پہنچا تھا۔۔
یہاں کے گارڈز اسے شروع سے جانتے تھے ۔۔
اس لیے وہ آریان کی غیر موجودگی میں بھی یہاں آجایا کرتا تھا ۔۔
سلام صاحب ۔۔۔
اکمل جو یہاں کھانا بناتا تھا ۔۔
وہ روز صبح اور شام کو ہی صرف یہاں آتا تھا ۔۔

میرے لیے ناشتہ بنا دیں ،،
وہ سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیتا ناشتہ کا بولتا اندر چلا گیا تھا ۔

کل رات آریان کا نکاح تھا ۔۔ وہ لڑکی جس پہ ان سب کی نیت خراب تھی۔۔ وہ آریان کی بیوی تھی۔۔
اور حیرت یہ تھی کہ اب کبھی ایسا خیال بھی دل میں نا آیا تھا ۔۔

اسے شانزے کو لینے جانا تھا ، وہ کل سے ہی اس سے سوال پہ سوال کر رہی تھی ۔۔

ابھی وہ اندر بیٹھا ناشتہ ہی کر رہا تھا کہ آریان بھی اندر داخل ہو گیا ۔

وہ اس کے گلے ملتا اسے مبارک باد دے رہا تھا ۔۔

آریان کے چہرے پہ خوشی صاف نظر آرہی تھی ۔۔
وہ جانتا تھا جو خبر وہ اسے سنائے گا اس کے بعد شاید وہ تھوڑا اپ سیٹ ہو جائے ۔۔

کیا بات تھی جو ایسے ایمر جنسی میں بلایا تم نے ۔۔

تمہارا شرمیلا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا  لیکن یہاں تو شرم کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے ۔۔
وہ ہنستا ہوا بولا تھا ۔۔

تمہیں دیکھ کر کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ تم ساری رات سوئے ہی نہیں ۔ خیریت تو ہے شادی تو میری تھی  لیکن جاگتے تم رہے ہو ساری رات ۔۔۔

آریان کافی فریش فیل کر رہا تھا ۔۔

ہونہہ ۔
کچھ ایسا ہی سمجھ لو ۔۔

ہاں۔۔
کل رات تم کہاں چلے گئے تھے نکاح بھی پورا اٹینڈ نہیں کیا تم نے۔۔
آریان کو اچانک یاد آیا تھا

بتاتا ہوں۔۔

کیوں  کچھ ہوا ہے کیا ۔۔
سب کچھ ٹھیک تو ہےنا ۔۔
اب کے آریان پریشان ہوا تھا ۔۔

کیا ہو رہا ہے ،،
تو دلہا صاحب بھی موجود ہیں یہاں۔۔
ولید اندر داخل ہوا تھا ۔۔

ہاں کیا حال چال ہیں ۔
آریان اس سے پوچھتا گلے ملا تھا ۔۔ وہ بات درمیان میں رہ گئی تھی ۔۔

اکمل بابا ۔۔۔
ولید اونچی آواز میں چیخا تھا ۔۔

میرے لیے بھی عثمان صاحب والا ناشتہ لے آئیں ۔۔
ولید انہیں کہتا ریموٹ اٹھا کر ایل ای ڈی آن کر چکا تھا ۔۔

کیا بات ہے تم لوگوں کو کیا تم دونوں کی بیویوں نے گھروں سے نکال دیا ہے جو یہاں پہ آکے ناشتے کر رہے ہو۔۔
آریان ان دونوں کو دیکھتا حیران ہو رہا تھا ۔۔

ولید ایل ای ڈی پہ ریسلنگ لگا کر دیکھ رہا تھا ۔۔

ولی یار بند کر اسے ۔
عثمان اسے کہہ رہا تھا ۔۔

وہ اتنا سیریس ہو کر کہہ رہا تھا کہ ولید جلدی سے آف کر گیا تھا ۔۔۔

آریان بھی متوجہ ہو گیا تھا ۔۔

کل رات حاشر کی موت ہو گئی ہے ۔۔
اس کے الفاظ تھے یا کیا کتنے ہی لمحے پورے کمرے میں سناٹا چھا گیا تھا ۔۔

کیسے ۔۔
کچھ لمحوں بعد آریان کی آواز گونجی تھی ۔۔

میں نے قتل کیا ہے اسے ۔۔
ہاسپٹل کی چھت پر ایک بچے کو لے کر چڑھ گیا تھا ۔
مجبوراً مجھے گولی چلانی پڑی۔۔
چھت سے گر کر مر گیا ہے ۔
ابھی وہ سرد خانے میں ہے اگر تم لوگ دیکھنا ۔۔۔
عثمان آہستہ آہستہ سے سب بتا رہا تھا

ایک بار پھر وہ ہی سناٹا چھا گیا تھا ۔۔

وہ مرتے ہوئے بھی کمینے پن سے باز نہیں آیا ۔۔
ایک بار پھر آریان ہی بولا تھا۔ ۔

مجھے اس کی موت پہ کوئی افسوس نہیں ہے ۔۔ اور نا ہی مجھے اس کی شکل دیکھنی ہے۔۔
جس لمحے اس نے میری پیٹھ میں خنجر کھوبنا چاہا تھا اس وقت سے ہی میں اس سے سارے رشتے ختم کر چکا ہوں ۔۔
اگر عثمان تمہیں اس کی موت کا افسوس ہے
اور جیسا کہ مجھے اب سمجھ آرہا ہے کہ تم ساری رات سوگ مناتے رہے ہو ۔۔

میں تمہیں بتا دوں میرے بعد اس کا اگلا شکار تم ہی ہوتے
اس لیے اچھا ہوا وہ مر گیا ،، ہم سب کے زندہ رہنے کے لیے اس کا مرنا ضروری تھا ۔۔
      خس کم جہاں پاک
آریان تلخی سے کہہ رہا تھا ۔۔۔
لیکن عثمان جانتا تھا کہ اندر کہیں تھوڑا سا افسوس تو اسے بھی ہو گا ۔۔

آریان صحیح کہہ رہا ہے ۔۔
اگر وہ نا مرتا تو ہم میں سے کون زندہ ہوتا آج یہ بتانا مشکل ہے ۔۔
وہ مجھے ہم چاروں میں سے ختم کرنے چلا  تھا ۔۔
لیکن آج وہ کہاں ہے۔
جو گڑھا اس نے ہمارے لیے کھودا تھا اس میں آج وہی ہے ۔۔
مجھے بھی اس کی موت کا کوئی افسوس نہیں

ولید بھی کہہ رہا تھا ۔۔ وہ دونوں صحیح کہہ رہے تھے ،،
آج اگر حاشر آزاد ہوتا تو ان تینوں میں سے کون کیسا ہوتا نہیں پتا تھا ۔۔۔
حاشر کو اس لالچ لے ڈوبا ہے ۔۔
وہ اپنی ذات کے لالچ میں سب بھول گیا اور یہ تو ہونا ہی تھا ۔۔

عثمان بولا تھا ۔۔۔

ہاں۔۔۔
لیکن اب ہماری زندگی سکون سے گزرے گی سارے ڈر ختم ہو گئے اب کھل کے جی سکتے ہیں ہم ہمارے گھر والے

خیر میں تم لوگوں کو یہ بتانے آیا تھا کہ پرسوں صبح چار بجے میری آسٹریلیا کی فلائٹ ہے۔۔
اور کل ریسیپشن پارٹی ہے۔۔۔

آریان انہیں انفارم کر رہا تھا ۔۔۔۔

تو ہنی مون پہ جا رہا ہے ۔۔
ولید خوشی سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔

ہاں ایک مہینہ کا ورلڈ ٹور کرنے والے ہیں ہم۔۔
دل چاہا تو ایک مہینہ میں واپس آجائیں گے ورنہ نہیں۔۔

ٹھیک ہے میرے بھائی زندگی انجوائے کر ۔۔
عثمان اس کی ٹانگ پہ ہاتھ مارتا بولا تھا۔۔۔

جا راج جی لے اپنی زندگی ۔
ولید آریان کے بال خراب کرتا ڈائیلاگ خراب کر رہا تھا ۔۔

یہ دیکھ میرے ہاتھ۔  ۔
بخش دے،۔ اب تو بخش دے ۔۔
تجھے کتنی دفعہ بولا نا تو محاورے بولا کر نا ڈائیلاگ اور نا شعر ۔۔
"جا ثمرین جی لے اپنی زندگی "۔
یہ ہے اصلی ڈائیلاگ ۔۔
عثمان باقاعدہ ہاتھ جوڑتا بولا تھا  

پتا ہے مجھے ہمارے پاس کونسا ثمرین ہے
ہمارے پاس تو راج ہے تو ہم راج کو ہی کہیں گے کہ جی لے اپنی زندگی ۔۔
ولید ایک اور بھونڈی تھیوری لایا تھا ۔

آریان ہنس رہا تھا ۔
عثمان بھی  کچھ دیر ولید کو دیکھتا رہا پھر مسکرا دیا۔
کچھ چیزیں کبھی نہیں بدل سکتی تھیں۔۔

وہ تینوں اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ رہے تھے ۔۔
پچھلی زندگی  کو وہ بہت پیچھے چھوڑ چکے تھے ۔۔
وہ ایک دوسرے سے گلے ملتے ایک دوسرے کی خوشیوں اور کامیابیوں کے لیے سچے دل سے دعا گو تھے ۔۔

وہ تینوں باکل نارمل نظر آرہے تھے ، جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔
جیسے کہ وہ ہمیشہ سے تین دوست ہی ہوں ۔
لیکن اندر کہیں دل میں ایک افسوس بھی تھا ۔۔۔
کاش ۔۔۔۔
سب کچھ اس طرح نا ہوا ہوتا ۔۔ 
تو آج حالات مختلف ہوتے ۔۔
لیکن کچھ کاش ہمارے دلوں میں ہی رہ جاتے ہیں ۔
یہ ہی زندگی کا اصول ہے ۔۔
اور اسی کے ساتھ سب جیتے ہیں ۔۔

ان تینوں کی منزل الگ تھی راستے الگ تھے ۔۔۔
لیکن دل ایک ہی تھے ۔۔
وہ اب ایک دوسرے کو کھونا نہیں چاہتے تھے ۔
بہت مشکل سے یہ دوستی بچی تھی ۔۔
وہ تینوں اپنی اپنی زندگیوں کی طرف لوٹ گئے تھے ۔۔
جہاں ان کی محبت ان کا انتظار کر رہی تھیں۔۔
مشکلات نے انہیں زندگی کی حقیقت سے آشنا کر وایا دیا تھا ۔۔

۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔