#ہم_نشین
از قلم عنائزہ بتول
موسٹ بولڈ اردو ناول
لاسٹ اپیسوڈ (پارٹ ٹو)
Hum Nasheen
Written by Anaiza Batool
Copyright owner
Novel Dot Com Official
Last episode Part 2
Most Bold Urdu Novel
سکندر ولاء
ہر طرف روشنیاں جلتی بجھتی نظر آرہی تھیں ۔۔
گیٹ کی اینٹرینس پہ لگے سفید للی کے اردگرد بھی ایک سٹائل سے لائٹس لگائی گئیں تھیں ۔۔
لان کے ایک طرف مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے وسیع و عریض انتظام کیا گیا تھا تو دوسرہ طرف کھانے کے انتظامات تھے ،،
سٹیج پہ مکمل انتظام کر دیا گیا تھا ،، ایک طرف ڈی جے موجود تھا جو اس تقریب کو دل کے اندر تک جانے میں مدد دے رہا تھا ۔۔
کچھ جوڑے سوئمنگ پول کے پاس کھڑے حسین نظارے کو اپنے موبائل میں قید کر رہے تھے ۔۔
سوئمنگ پول کے ارد گرد خوبصورت پھولوں اور سفید اور نیلی روشنیاں چمک رہی تھیں ۔۔
سوئمنگ پول کے آگے بہت ہی خوبصورت سٹیج لگایا گیا تھا ،،
جس کی سجاوٹ نہایت ہی شاندار لگ رہی تھی۔ سٹیج پر گلابی گلاب اور للی کے پھولوں سے گولائی کی شکل میں اینٹرینس بنائی گئی تھی ۔۔
سٹیج کے پاس ڈی جے میوزک مینیج کر رہا تھا۔ ، ہلکے میوزک اور ہلکی ہوا جو کہ اس گرمی کے موسم میں بھی ٹھنڈی تھی،، آسمان ہلکے بادلوں سے گرا تھا ،،
دلہا دلہن کی اینٹرینس کے لیے بھرپور انتظامات کیے جاچکے تھے ۔۔
اب اگر گیٹ کے پاس آؤ تو مسز زارا اور سکندر صاحب کھڑے تھے وہ آنے والے مہمانوں کو ریسیو کر رہے تھے ۔۔
مسز زارا سیاہ سلک کی ساڑھی زیب تن کیے ہوئے رات کے ہم مزاج لگ رہی تھیں ،، سنہری بالوں کا جوڑا بنائے ڈائمنڈ جیولری پہنے آج تو ان کی چمک ہی الگ تھی ۔۔
آج ان کے بیٹے کی ریسیپشن پارٹی تھی ۔۔
وسیع لان اس وقت لوگوں سے بھرا پڑا تھا ۔۔
سارا منظر اتنا حسین تھا جتنا اسے ہونا چاہیے تھا ،، ہوتا بھی کیوں نا آخر کار خان فیملی کے اکلوتا جان نشین کی شادی تھی ۔۔۔ آریان خانزادہ ،، جو کہ سوشل سرکل میں اپنی خوبصورتی اور خوبرو اور ذہین ہونے کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔۔۔
اتنی کم عمر میں وہ اپنے باپ کے بزنس کو کہاں سے کہاں لے گیا تھا ،، بہت سے بزنس مین اور سیاست دانوں اسے اپنا داماد بنانا چاہتے تھے ،، بہت سی امیر اور خود کو حسین دوشیزہ سمجھنے والی لڑکیاں بھی اس پارٹی میں ایک سے بڑھ کر حسین بن کے آئی تھیں ،،۔
آخر کو وہ بھی تو دیکھیں کون ہے وہ لڑکی جسے آریان نے چنا ہے ،، وہ ان سے زیادہ حسین تو نہیں ہو سکتی ۔۔۔
آخر کار سامنے شخص آریان خانزادہ تھا اور اس کی ریسیپشن پارٹی تھی کوئی عام بات نہیں ۔۔۔
آخر کار سب کا انتظار ختم ہوا ،، اور سٹیج کے دوسری جانب سے سڑھیاں چڑھتے ان دونوں کے سر نمایاں ہونے لگے،،
گول دائرے کی صورت میں روشنی انہیں نمایاں کر رہی تھی ،،
ان کے چلنے کے اوپر فائر ورکس جو ایک بعد ایک چل رہی تھی ،،
اور پھولوں کی بارش جو کے سٹیج پہ سیٹ کیے گئے تھے ،،
آریان بلیک سٹائلش ڈنر سوٹ میں تھا ،، لمبی ٹائی کی جگہ بٹرفلائی ٹائی کا استعمال کیا گیا تھا ،،
بالوں کا ہئیر اسٹائل بھی چینج تھا ،، جیل سے براؤن بال ایک جانب جمائے ہوئے تھے ،، ہلکی داڑھی میں صاف رنگت کے ساتھ وہ آج پہلے سے زیادہ جازب لگ رہا تھا ،،
وہ اپنے ایک ہاتھ سے زرین کو ڈانس کی صورت میں گھما رہا تھا ،،
زرین جو کہ ہلکے گلابی رنگ کے فئیری فراک میں تھی ،، جو کے بہت قیمتی انداز سے تیار کی گئی تھی ،،
بالوں کو لوز کرل کر کے آگے کو ڈالا گیا تھا ،،
ڈوبٹہ سر پہ جمائے ،، مومی چہرہ کے ساتھ ،،
وہ آریان کے گھمانے پر کسی گڑیا یا سنڈریلا جیسی لگ رہی تھی ۔۔ جسے اس کا شہزادہ مل گیا ہو ۔۔
وہ دونوں ایک ساتھ اتنے مکمل اور حسین لگ رہے تھے کہ ہر کسی کی آنکھیں ٹھہر گئیں تھیں ،،
مبہوت تو مسز زارا سکندر بھی رہ گئیں تھیں ،، انہوں نے اپنے بوتیک سے دن رات ورکرز کو لگا کر یہ زرین کا ڈریس تیار کروایا تھا ،،
ان کی بہو کو سب سے الگ اور حسین نظر آنا چاہیے تھا ،،
ان کے بیٹے کا انتخاب بہت خوبصورت تھا ،، آج وہ بھی دل سے مان گئیں تھیں۔
نورین آفندی بھی انہی دیکھ رہی تھی ، سامنے کھڑا لڑکا جو ان کا داماد تھا ،، اس نے کتنا سٹینڈ لیا تھا زرین کو حاصل کرنے کے لیے ،، ،،
دوسری طرف ارتضیٰ آفندی اپنی آنکھوں میں آئے خوشی کے آنسو صاف کرتے زرین کو دیکھ کر مسکرا دیے تھے ،،
ان کی بیٹی کا انتخاب غلط نہیں تھا ،، آج انہیں بھی یقین ہو گیا تھا ،،۔ شکر تھا کہ انہوں نے اس کا گھر اپنے ہاتھوں برباد نہیں کر لیا تھا ۔۔
،،
وہ دونوں کنگ سائز صوفوں پر بیٹھے تھے ،، سب لوگ باری باری انہیں تحائف دیتے اور دشمن بھی تعریف کرتے ،، وہ دونوں ایک ساتھ اتنے مکمل اور خوبصورت دکھائی دے رہے تھے ۔۔
فوٹو گراف ان حسین پلوں کو کیمرے میں قید کر رہے تھے
۔۔
بس کر دے یار مجھے خطرہ ہے کہیں تیرے سارے دانت باہر نا گر جائے ،
ولید آریان کے مسکرانے پہ طنز کر رہا تھا ،،
ہاں یار ،
اگر گر گئے اس کے دانت تو قسم سے بڑی بدنامی ہو جانی ہے ،،
اگر ایسا ہوا تو آریان یاد رکھیں میں نے تجھے آج تک کبھی دیکھا بھی نہیں ،،
عثمان ڈرامائی انداز میں بولا تھا ،،
وہ دونوں فوٹو شوٹ کر وا رہے تھے آریان کے ساتھ ،،
زرین کے ساتھ آئزہ اور شانزے بیٹھیں تھیں ۔۔۔
آج آریان کو کسی بات پہ غصہ نہیں آرہا تھا ۔۔
وہ ان دونوں کے طنز سننے کے بعد بھی قہقہ لگا کر ہنسا تھا ۔۔۔
جبکہ اب کی بار اس قہقہہ میں ان تینوں کا قہقہے شامل تھے۔
سب لوگ جا چکے تھے ۔۔
کھانا لگ چکا تھا ،،
ناک ،، ناک ۔
آریان اپنی ایک انگلی سے زرین کے ہاتھ پر دستک دیتا بولا تھا ۔۔
وہ حیرانی سے اس کی جانب دیکھے گئی ۔ وہ دونوں سٹیج مختلف پوز دے کر تھک چکے تھے ۔۔
سنیے اے پری وش حسینہ ،،،
کیا آپ میری بیوی کو جانتی ہیں ؟؟
آپ نے انہیں کہیں دیکھا ہے ؟؟؟
زرین اس کے اس طرح کہنے پہ مزید حیران ہوئی تھی ۔۔
کیا ہے نا کر یہاں ہر عورت بہت سا میک آپ لگا کر گھوم رہی ہے تو مجھے پہچان نہیں آرہی ۔۔۔
۔وہ شرارت سے مسکراہٹ دباتا بولا تھا ۔۔
میں بھی یہاں اپنے ہسبنڈ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہوں۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی مسکراہٹ دباتی ہوئی بولی تھی۔۔۔
خبر دار جو کسی کو ڈھونڈا تو ،،
یہاں دیکھو ۔۔ اس طرف۔۔
اور مجھ سے محبت کرو ۔
سنا تم نے ۔۔۔
وہ مصنوعی غصہ کرتا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا تھا ۔۔
اچھے لگ رہے ہیں آپ ۔۔۔
اس کا ہاتھ نرمی سے تھامتی وہ بولی تھی ۔۔۔
وہ جو غصے میں تھا یکدم سے مسکرا اٹھا ۔۔۔
تم بھی ۔۔۔
بیت "لو یو " لگ رہی ہو
جبکہ وہ اس کی بات سن کر بے ساختہ ہنسی تھی۔۔
تعریف کرنے کا یہ انوکھا طریقہ اس نے آج پہلی دفعہ سنا تھا ۔۔۔
کیا ۔۔ ۔
لو یو۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔
" کس یو " لگ رہی ہو۔
وہ اس کی بات کا جواب دیتا کھڑا ہوتا اس کے آگے ہاتھ پھیلا رہا تھا ۔۔
اور وہ اس کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیے مسکراتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
ان کی فلائٹ کا ٹائم ہو رہا تھا ۔۔۔
مہمان کچھ جا چکے تھے ۔۔ اور کچھ جا رہے تھے ۔۔
بہت سی نظروں کو اس نے نظر انداز کیا تھا۔
وہ بدل گیا تھا۔
اسے اب صرف اس پری وش کا ہو کر رہنا تھا ۔۔
جو اس وقت اپنے بابا سے مل رہی تھی ۔۔۔
وہ دونوں قدم سے قدم ملاتے ایک دوسرے کے سنگ اندر کی طرف بڑھ گئے۔
آج وہ آسٹریلیا کے لیے نکل رہے تھے ۔۔۔
ایک نئے سفر کی طرف ۔۔
پیار کے سفر کی طرف ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️
گہما گہمی ،، اور بہت سے شور میں وہ دونوں نفوس چلتے ہوئے آرہے تھے ۔۔
مرد نے اپنے ہاتھوں میں بیگ تھام رکھے تھے۔ ، جبکہ لڑکی نے ایک ہیند کیری بیگ پکڑے رکھا تھا ۔۔
چہرے پہ سیاہ ماسک لگائے ،، سر پہ پی کیپ پہنے وہ ساتھ چلتے مرد کے قدموں سے قدم ملاتی جا رہی تھی۔۔۔ جبکہ مرد کا چہرہ عیاں تھا ۔
وہ دونوں آریان اور زرین نہیں بلکہ مونا اور افضل تھے۔۔۔
تم ابھی تک رو رہی ہو ۔۔ میں نے کہا ہے نا کہ پریشان مت ہو ۔۔۔ ہم بہت جلد آنٹی کو بھی اپنے پاس کینیڈا بلا لیں گے۔۔۔
افضل نے اسے روتا دیکھا تو ایک بار پھر سے سمجھانے لگا گیا ۔۔
کل شام کو ہی انہوں نے نکاح کیا تھا اور آج افضل اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے لیے سکالرشپ پہ اپنے ساتھ مونا کو بھی لئیے کینیڈا جا رہا تھا ۔۔
پتا نہیں کیوں ،، مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے ۔۔
جب اب میں اس دلدل سے نکل گئی ہوں تو لگ رہا ہے کہ اپنے پیچھے کسی بہت اپنے کو چھوڑے جا رہی ہوں ۔۔
وہ روتے ہوئے بولی تھی ۔۔
اوہو ۔۔ جان ،،
یہاں سب سمجھیں گے میں تمہیں اغواہ کر کے لے جا رہا ہوں ۔۔
جاؤ شاباش واش روم میں منہ دھو کر آؤ ۔۔
وہ اسے سامنے واش روم کی طرف بھیج رہا تھا ۔۔
جسیے ہی وہ آگے بڑھی کوئی اس سے آگے جلدی سے گزرا ،،
گزرنے والے کا چہرہ وہ دیکھ چکی تھی ۔۔۔
دلاور ۔۔۔
اس کے لبوں نے سرگوشی کی تھی۔۔
مگر دوسرے ہی لمحے وہ غائب ہو گیا تھا ۔۔
لیکن اس نے دیکھا تھا وہ ابھی کچھ لمحے قبل تو یہیں تھا ۔۔۔
بے ساختہ اس کا ہاتھ اس کے پرس کے اندر رکھے موبائل پر گیا تھا ۔۔
واش روم میں گھستے ہی اس نے موبائل نکالے عثمان کو کال کی تھی ۔۔
جب سے آریان نے اس کی حفاظت کی زمہ داری لی تھی ،۔ کامران یا عثمان اس سے رابطے میں رہتے تھے ۔
اب تو اس کو باحفاظت ملک سے نکالنے کے لیے عثمان نے ان دونوں کے پیچھے اپنے دو پولیس والے بھیجے تھے ۔
مونا کو ڈر تھا دلاور اسے ضرور تنگ کرے گا ۔
اس کا بھیانک ماضی اس کا پیچھا نہیں چھوڑنے والا ۔۔۔
وہ واش روم سے باہر نکلتے ہی مناسب قدم لیے آگے بڑھ رہی تھی ۔۔ سامنے ہی افضل کھڑا کافی خرید رہا تھا ۔۔
اسے جلد سے جلد اس کے پاس پہنچنا تھا۔
تبھی کسی نے پیچھے سے اس کے منہ پہ اپنا مضبوط ہاتھ رکھا
تھا ۔۔ گھٹی سے چیخ اس کے لبوں سے نکلی تھی ۔۔
چپ چاپ میرے ساتھ چلو ۔ ورنہ یہیں تجھے اور تیرے اس شوہر کو زندہ گاڑ دوں گا ۔۔
یہ آواز ،، اسی شخص کی تھی۔ وہ اس کا دھوکہ نہیں تھا ۔
اس کے پاس اس کی بات ماننے کے علاؤہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ۔ ارد گرد نظر گھما کر اس نے کسی کو تلاش کرنا چاہا تھا۔
لیکن افضل اس کی طرف نہیں دیکھا رہا تھا۔ ۔
چل سالی ۔۔ ۔
رنڈی کی اولاد نا ہو تو ۔۔
دلاور کو چکما دے کر فرار ہونا آسان نہیں ۔
وہ اس کو دھکا دیتے ہوئے پھنکارا تھا۔
فلائٹ تیار تھی ۔۔ اناؤسمنٹ ہو رہی تھی ۔ انہیں چیک آؤٹ کرنا تھا۔
لیکن وہ اس کے ساتھ چلنے لگی تھی اس کے علاؤہ کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا ۔۔
لیکن تبھی اسے پیچھے سے ایک زور دار دھکا لگا تھا کہ وہ نیچے جا گری تھی ۔ ۔
پیچھے سے شور پہ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔
دلاور پولیس کے ہاتھ لگا چکا تھا ۔۔
اور اس کے سامنے افضل ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔
وہ اس کا ہاتھ تھامتی آٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
افضل کا فیصلہ ٹھیک تھا ۔ اس کو ایک پرسکون زندگی کے لیے یہ ملک چھوڑنا ہی تھا۔
وہ دور جاتے دلاور پر نظر ڈالتی سوچ رہی تھی ۔
جو مسلسل چیخ رہا تھا ۔۔۔۔
وہ اس کے ہمراہ چیک آؤٹ کرنے کی طرف چل دی ۔۔
اب یہاں اس کا کچھ باقی نہیں تھا۔
اسے ڈاکٹر کے وہ الفاظ یاد آئے تھے ۔۔ جو اس نے ہاسپٹل میں سنے تھے۔
" دیکھیں ان کے دماغ کا کچھ حصہ سو رہا ہے ، جس طرح ہم کسی آپریٹ کو کرنے کے لیے کسی جگہ کو سن کر دیتے ہیں ،، ویسے ہی ان کی یادیں کہیں کھو گئی ہیں ۔
اس طرح کے پیشنٹ زیادہ تر اپنی عمر کے آخری حصہ میں کم ٹھیک ہوتے ہیں۔ ۔
لیکن ہم پوری کوشش کر رہے ہیں ،،۔ آپ یقین رکھیں یہاں پر ان کا علاج بہت بہتر ہو رہا ہے ،، آپ انہیں جہاں کہیں بھی لے جائیں گی ،، آپ کو نتیجہ ایسا ہی ملے گا۔۔۔
ہمیں امید ہے ہم انہیں ایک سال کے اندر بہتر کر لیں گے ۔۔ آپ بھروسہ رکھیں۔ "'
وہ اس وقت جہاز میں بیٹھ چکے تھے۔ جہاز رن وے پر بھاگ رہا تھا۔
افضل اس کا سیٹ بیلٹ باندھتا اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے تھا۔
وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دی تھی۔۔۔
وہ خوش قسمت تھی۔ جو ایسی زندگی جو کہ ایک گالی تھی اسے چھوڑ کر مکمل زندگی جینے جا رہی تھی۔
وہ مطمعن انداز میں مسکرا دی تھی۔
اس کے کندھے پہ اپنا سر رکھے آنکھیں موند گئی تھی۔ کانوں میں موجود ہینڈ فری میوزک سنا رہی تھی۔
زندگی اب پرسکون گزرے گی اس کی امید کی جاسکتی تھی۔اب۔۔ افضل اس کے منہ چاکلیٹ ڈال رہا تھا ،، وہ آنکھیں بند کیے ہی اس چاکلیٹ کی مٹھاس کو محسوس کر رہی تھی ۔۔
اس کی زندگی بھی اتنی ہی میٹھی ہو گئی تھی ،،
اور اسے امید تھی کہ آگے بھی ایسے ہی ہو گی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
💕💕💕
سوئٹزرلینڈ ۔۔۔۔
یہاں کی آب و ہوا سال کے تین سو ساٹھ دن سرد ہی رہتی ہے ۔۔
اور باقی کے پانچ دن موسم ہلکی گرمی کی جھلک دکھاتا ہے ..
یہ سال کے وہ دن ہوتے ہیں جب دور دراز سے یہاں لوگ تفریح کرنے آتے ہیں ۔۔
سارا سال چونکہ یہ ملک برف سے گرا ہوتا ہے ، اس لیے جولائی سے اگست تک موسم خوشگوار ہوتا ہے ،، اس میں بھی کبھی بارشیں ہوتی ہیں ۔۔
وہ دونوں اس وقت کشتی میں تھے ۔۔ "جھیل لیوسرنے" کے اطراف میں نظر آتے حسین مناظر آنکھوں کو بہت اچھے لگ رہے تھے ۔
کہا جاتا تھا کہ اگر آپ سوئٹزرلینڈ کی خوبصورتی کو ایک جگہ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو "جھیل لیوسرنے" ضرور جانا چاہیے ۔۔۔
انہیں آسٹریلیا سے آئے ہوئے دوسرا ہفتہ تھا ۔ اور ان کے ورلڈ ٹور کا یہ دسواں دن تھا۔
ان کی طرح اور بھی بہت سے لوگ کشتی میں موجود موبائل پہ ان مناظر کو قید کر رہے تھے ۔۔
آریان اس وقت سیاہ شرٹ اور سیاہ ہی کھلے ٹراؤزر میں تھا ۔
آنکھوں پہ سیاہ گلاسز لگائے اپنی صاف رنگت کے باعث وہ کوئی انگریز ہی لگ رہا تھا ۔۔۔
جبکہ زرین پیلے رنگ کا بھول دار فراک پہنے ہوئے تھی ،، جس کے ساتھ وہ سفید جینز پہنے ہوئی تھی ۔۔ سر پہ ہیٹ رکھے ۔۔ گلے میں مفکر لپیٹے ۔۔ بالوں کی ڈھیلی سی چوٹی بنا رکھی تھی ۔جو اس کی کمر پہ جھول رہی تھی ۔۔ کچھ آوارہ لٹیں ہوا کے باعث اس کے چہرے کے اطراف میں گھوم رہیں تھیں۔
وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خوبصورت ہو رہی تھی ۔۔
آریان کے ساتھ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ پرسکون رہتی تھی ۔۔
اس کے گال گلابی ہو رہے تھے ۔۔۔
ماں بننے کا روپ اس پہ ٹوٹ کر آرہا تھا ۔۔
آریان دیکھیں یہ کتنا پیارا لگ رہا ہے نا ۔
وہ سورج غروب ہونے کے مناظر کو دیکھ کر چیخی تھی ۔
یہاں موجود سارے لوگ سوئٹزرلینڈ کی سرزمین پر سورج غروب ہونے کا حسین منظر ہی دیکھنے آئے تھے ۔۔
ہاں بہت خوبصورت ہے ۔۔۔
وہ اس کے چہرے پہ اپنی نظریں جمائے بولا تھا۔
اسے سامنے کے منظر سے زیادہ اس حسینہ میں دلچسپی تھی ۔
لیکن یہ کیا سورج غروب ہوتے ہی اگلے پل بارش شروع ہو چکی تھی ۔۔۔
وہ تو گرمی کے مناسبت سے ہلکے پھلکے کپڑے پہن کر آئے تھے ۔۔ اور اب سردی کا احساس ہو رہا تھا ۔۔۔
زرین اپنے بازؤں پہ ہاتھ ہھیر رہی تھی ۔
اسے دیکھتے ہی آریان نے اسے اپنے گلے لگا لیا ۔۔۔
تمہاری سردی کا علاج میری بانہوں میں ہے ۔۔۔
اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔
اور واقعی ہی اس کی بانہوں میں آتے ہی اسے سکون محسوس ہو گیا تھا ۔۔ وہ اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹے ہوئے تھا ,،،
اور زرین اس کے سینے پہ سر رکھے آنکھیں موند گئی تھی ۔۔۔
اب وہ لوگ واپس جا رہے تھے ۔۔ بارش کی وجہ سے شام رات میں تبدیل ہو رہی تھی ۔۔ کشتی کا رخ ہوٹل کی طرف موڑ دیا گیا تھا ۔۔ یہ کشتی بھی ہوٹل کی طرف سے تھی جس میں مختلف سیاح خوبصورت مناظر دیکھنے کے لیے سوار ہوتے تھے۔
رات کے اترتے گہرے سائے ،،۔ اور ایسے میں ہلی ہوتی بارش میں ارد گرد کا نظارہ پہلے سے بھی زیادہ حسین ہو گیا تھا ۔ ۔
سامنے نظر آنے والا ہوٹل سوئٹزر لینڈ کے لگزری ہوٹل میں سے ایک تھا۔ شاندار ہوٹل جو کے دیکھنے سے کسی محل جیسا لگتا تھا ،، پیچھے اونچے پہاڑوں سے گرا ہوا تھا ،، تو سامنے کی جانب خوبصورت سی جھیل حسین منظر پیش کر رہی تھی ،،
جھیل کے پاس مختلف کشتیاں ،، اور گرد خوبصورت سٹریٹ لیمپ لگے ہونے کی وجہ سے بہت خوبصورت منظر پیش ہو رہا تھا ۔۔۔
ہوٹل کی دائیں طرف جھیل سے ہوتی ہوئی سڑک جاتی تھی۔ اور بائیں جانب اونچے درخت اور پھول دار پودے ایک حسین باغ کا منظر پیش کر رہے تھے ۔۔
فون مسلسل بج رہا تھا ،، پہلے تو وہ کچھ دیر تک انتظار کرتی رہی مگر پھر جب فون بند نہیں ہوا تو باتھ ٹاول خود کے گرد لپیٹیتی واش روم سے باہر نکلی ۔۔
آریان روم میں نہیں تھا ۔۔
مام کالنگ ۔۔۔ جگمگا رہا تھا ۔۔
جی مام ۔۔ کیسی ہیں آپ ۔۔
وہ فون کان سے لگاتی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑی ہوئی ،، ٹاول اس کی تھائیز تک آرہا تھا۔ ایک ہاتھ سینے پہ رکھے وہ اپنا عکس آئینہ میں دیکھ رہی تھی ۔۔
وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی ، آریان صحیح کہتا تھا۔ اس کا رنگ پہلے سے زیادہ کھل گیا تھا ،،
ماں بننے کا روپ اس پہ آرہا تھا ۔۔
کیا ،،،
آج ان کی سالگرہ ہے ۔
مسز زارا کی بات سن کر وہ حیرانگی سے بولی تھی ۔
انہوں نے اسے سالگرہ کی مبارک باد دینے کے لیے فون کیا تھا،،
وہ بتا رہی تھیں صبح سے فون نہیں ہو رہا تھا ،،
آج ان کی برٹھ ڈے ہے ،، اور مجھے پتا ہی نہیں ہے، ،
وہ بیگ کھولے بلیک نائٹی پہنتے ہوئے منہ میں ہی بڑبڑا رہی تھی۔
اف ،،، اب کیا کروں،،
میں نے تو کچھ بھی پلین نہیں کیا ،، ان کی پہلی سالگرہ ہے شادی کے بعد اور مجھے پتا ہی نہیں ،،
وہ کمرے میں چکر کاٹتی خود سے ہی باتیں کر رہی تھی ۔۔
کیا ہوا ،،
اس طرح چکر کاٹتی کہیں گر نا جانا ، اگر تم گر گئیں تو میرا بہت نقصان ہو جائے گا ۔۔
وہ اندر داخل ہوتا اسے اس طرح چکر کاٹتی کو دیکھتا بولا تھا ۔۔
کیا آپ کو کسی نے گفٹ دیا ہے ۔۔
وہ اس کے ہاتھ میں پکڑے بوکے کی طرف دیکھتی پوچھ رہی تھی ۔
آں ۔۔۔ یہ ،۔ نہیں ،، یہ تو میں تمہارے لیے لے کر آیا ہوں ۔ وہ اسے پیچھے سے اپنی بانہوں میں بھرتا بولا تھا ۔۔
وہ جانتا تھا اس کو نہیں پتا کہ آج اس کی سالگرہ ہے ۔۔
یہ بوکے اسے یہاں اس کے ایک بزنس دوست نے دیا تھا ، جس سے وہ ابھی مل کے آرہا تھا ،، وہ تو برٹھ ڈے پارٹی کرنا چاہ رہا تھا ،، لیکن آریان نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہ ہنی مون وکیش پر ہے ۔۔۔
۔
وہ اس کے نم بالوں کی خوشبو کو اندر اتارتا اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹے کھڑا تھا۔
ہیپی برتھڈے ۔۔۔
چند لمحوں بعد وہ آہستہ سے بولی تھی ۔۔
وہ چونک گیا تھا ۔۔
میرے پاس ابھی ایسا کچھ نہیں کہ میں آپ کو گفٹ دے سکوں ، اور سچ کہوں تو مجھے پتا بھی نہیں تھا ،، یہ تو آپ کی مام کی کال آئی تو انہوں نے بتایا ۔۔
لیکن میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں اگلے سال سے آخری سانس تک آپ کی جتنی برٹھ دے آئیں گی میں آپ کو سب سے پہلے وش بھی کروں گی اور گفٹ بھی دوں گی۔۔۔
وہ اس کی طرف مڑتی کہہ رہی تھی ۔۔ وہ شرمندہ ہو رہی تھی ۔ آریان نے اسے کتنے قیمتی تحفے دیے تھے اور ایک وہ تھی اس کو اس کی برٹھ ڈے بھی یاد نہیں تھی ۔۔۔
میری جان ،،
تم مجھے دنیا کا سب سے قیمتی تحفہ دے تو رہی ہو ،، جو مجھے کوئی بھی نہیں دے سکتا ۔۔
تو پھر شرمندہ کیوں ہو رہی ہو ۔۔۔ میرا وارث ،
تم مجھے اولاد دے رہی ہو ۔۔۔
ابھی بھی کہہ رہی ہو کہ تم مجھے کچھ نہیں دے پا رہی۔۔۔
وہ اس کے بے بی بم ( جو کہ ابھی محسوس بھی نہیں ہوتا تھا) پہ ہاتھ پھیرتا بولا تھا ۔۔
وہ شرما گئی تھی۔ گال سرخ ہونے لگے تھے۔
لیکن اگر پھر بھی تم مجھے گفٹ دینا ہی چاہتی ہو تو ۔۔
وہ اس کے نائٹ گاؤن کی ناٹ کھینچتا بولا تھا ،،
نائٹ گاؤن نیچے جا گرا تھا ،، وہ اس صرف ایک باریک نائٹی جن میں تھی اب ۔ جو اس کی تھائیز تک تھی۔۔۔
تو خود کو مجھے دے دو ،، کم سے کم آج رات کے لیے ۔۔۔
وہ اس بال گردن سے ہٹاتا اس کے کان کے پاس جھکتا بولا تھا ۔
زرین کی جان نکلنے لگی تھی۔ اس کا ہر انداز ہی جان لیوا تھا۔
وہ۔ آپ کی برٹھ ڈے ہے تو کیوں نا ہم کیک ہی کٹ کر لیں ۔۔۔
وہ اس سے دور ہوتی جا کے صوفے پر بیٹھ گئی تھی ۔۔
اچھا ایسا ہے کیا ۔۔
وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تھا ۔۔
تبھی دروازہ ناک ہوا تھا ۔۔ آریان دروازہ کھولتا ہاتھ میں چاکلیٹ کیک لیے اندر داخل ہو رہا تھا ۔۔۔
وہ حیران ہوئی تھی ۔۔
اور وہ مسکراتا ہوا ۔۔ کیک میز پہ رکھتا ، کینڈلز جلاتا کمرے کی لائٹ آف کر گیا تھا ۔۔۔
تو چلیں پھر ۔۔
ہاتھ میں چھری پکڑے وہ اس کے ساتھ آ کے بیٹھ گیا تھا ۔۔
ہیپی برتھڈے ٹو می ۔۔۔
وہ ایک ہاتھ میں چھری پکڑے اور دوسرے ہاتھ کو آگے بڑھاتا زرین کے گرد بازو لپیٹتا کہہ رہا تھا ۔
ہیپی برتھڈے ٹو یو۔۔
زرین کہتی آہستہ سے تالیاں بھی بجا رہی تھی ۔۔
وہ موم بتی کو بجھاتا چھری سے کیک کو کاٹتا گیا ۔۔
پھربایک پیس اٹھاتا زرین کے لبوں سے لگایا ۔۔۔ اور پھر اس کا کھایا ہوا باقی کا پیس خود کھا گیا ۔۔۔
اب لاؤ میرا گفٹ۔۔۔
وہ اس کی طرف دیکھتا شرارتی آنکھوں سے اسے دیکھتا بولا تھا ۔۔
وہ پہلے تو حیران ہو گئی اور پھر کچھ سمجھتے ہوئے اس کے قریب ہوتی اس کے گال پہ اپنے لب رکھ گئی ۔۔
جبکہ آریان کچھ لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا ،، اور پھر کیک کا پیس اٹھا کر زرین کے چہرے سے ہوتا گردن تک لگاتا گیا۔۔
وہ حیران ہو رہی تھی وہ کیک اس پہ کیوں لگا رہا تھا لیکن اگلے ہی پل اس کی اس کی جان نکل گئی جب وہ اس کی گردن پہ حملہ آور ہوا۔۔
وہ اس کی گردن کے دونوں طرف کیک صاف کرتا اس کی گردن کو بھی گیلا کر گیا تھا۔
ایک لمحے کو وہ رکا تھا ۔۔۔
اور اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔
وہ گہرے سانس لیتی مخمور آنکھیں آدھی بند کیے ہوئے تھی۔۔
چند لمحے وہ اس پری پیکر کو دیکھتا رہا ۔۔ جس کا چہرہ جذبات کی شدت کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔
وہ صوفے پہ پیچھے کو لیٹ گئی تھی اور وہ اس کے اوپر جھکتا گیا ۔۔
اور پھر اس گلابی لبوں کو قید کر گیا ۔۔ ۔
وہ اس کا ساتھ دے رہی تھی ،، لیکن اس کی شدت کے آگے وہ ہار گئی تھی ۔۔
وہ اس کی سانسوں کو پی رہا تھا ۔۔ اور ایک ہاتھ اس کی ٹانگوں پہ رکھے اس کی ٹانگوں کو کھول رہا تھا ۔۔۔
زرین کے ہاتھ اس کی شرٹ کے بٹن کھول رہے تھے آہستہ سے ،،
جذبات کی آگ اسے جلا کر راکھ کر رہی تھی ۔۔۔
وہ جل رہی تھی۔ تڑپ رہی تھی اور وہ ستم گر اسے تڑپا رہا تھا اپنی شدتوں سے ۔
اس کے لبوں کو آزاد کرتا وہ اس کو سانس لینے کا موقع دیے بغیر اس کے جسم پہ موجود واحد باریک نائٹی کو اتار گیا ۔۔
وہ نیٹ کی برا اور انڈروئیر پہنے ہوئے تھی جس میں اس کا گوارا بدن اپنے سارے خدو خال نمایا کر رہا تھا ۔۔۔
پھر سے وہ کیک کا پیس چمچ سے اٹھاتا اس کے زرخیز سینے اور پیٹ پر لگانے لگا ۔۔
زرین سوچ کے ہی اس کے ساتھ اب کیا ہونے والا ہے تڑپ اٹھی تھی ۔۔ لیکن وہ اسے منع نہیں کر رہی تھی اسے اچھا لگ رہا تھا یہ سب بھی ۔۔
اس کی بیوٹی بون سے ہوتا وہ اس کے سینے پہ بنے دو پہاڑوں کے درمیان جاتا اپنے لبوں سے اسے معتبر کرتا گیا۔
اس کے پیٹ پہ آہستہ سے نرمی سے لبوں کو رکھ رہا تھا ، اس کا بچہ اندر سو رہا ہو گا ۔۔
وہ سارے کیک کو صاف کرنے کے بعد اس کی برا کو اتار رہا تھا ۔۔۔
زرین کا سارا چہرہ لال ٹماٹر بنا ہوا تھا ۔۔ اس کی گردن اور ہاتھ بھی جذبات کی شدت سے سرخ ہو رہے تھے ۔۔۔
وہ لباس سے بے نیاز اس کے سامنے تھی ۔۔۔
میں نے آج تک کبھی اتنا میٹھا نہیں کھایا ۔۔
لیکن آج لگتا ہے میں میٹھے کی کان ہی کھا جاؤں گا۔۔۔
وہ نرم سینے پہ ہاتھ پھیرتا اس کی آنکھوں میں دیکھتا سرگوشی کر رہا تھا ۔۔
کمرے میں ملگجا اندھیرہ تھا ۔ جو اس حسین لڑکی کے حسن کو اور بھی پرکشش بنا رہا تھا ۔
آریان ،،، میں ۔۔
اس نے اپنے خشک ہوتے لبوں سے کچھ کہنا چاہا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ اس کے گداز سینے پہ موجود گلابی سے نشان پہ کیک لگائے جیسے اس گلابی سے حصے کو ہی کھا رہا تھا ۔۔
جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ زرین کی ٹانگوں کے درمیان موجود نازک سے حصے پہ گھوم رہا تھا ۔
زرین اپنے ہاتھوں سے اس کی شرٹ اتارتی اس کے سینے پہ اپنے ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔ چوڑا سینا ،، کسرتی بدن ،،
اور اس کے نازک ملائم ہاتھ ۔۔
وہ یکدم پیچھے ہٹا اور اس کی ٹانگوں کو پورا کھولتا اس کی تھائیز پہ انگلی سے کیک لگاتا چومنے لگا ۔۔
آگے بڑھتا وہ اس کی ٹانگوں کے درمیان اس نازک حصے کو بھی اپنے لبوں سے چھوتا زرین کو پاگل کر گیا تھا ،،
وہ اسے شرم کے مارے پیچھے کر رہی تھی ۔۔
،شاید آریان کی بھی برداشت یہیں تک تھی وہ اس برہنہ حسین پری وش کو گود میں اٹھاتا بیڈ پہ لٹا گیا۔ اور خود اپنی جینز اتارتا اس پہ حاوی ہو گیا ۔۔۔
وہ جو پہلے سے ہی تڑپ رہی تھی ، اب وہ سسک اٹھی تھی ۔۔
وہ آہستہ سے آگے پیچھے ہوتا اس کی جان نکال رہا تھا ۔۔۔
کمرے میں زرین کی سسکیوں کی گونجتی ہوئی آواز آریان کو اور پاگل کر رہی تھی ۔۔ لیکن وہ خود پہ قابو پا رہا تھا ۔۔
وہ جنونی نہیں ہونا چاہتا تھا ۔۔ کہیں اس نازک سی لڑکی کی طبیعت ہی خراب نا ہو جائے ۔۔۔
وہ اس کے اوپر سے اتر گیا تھا ۔۔ کہیں اسے زیادہ وزن محسوس نا ہو ،۔۔
وہ نیچے لیٹتا اس اپنے اوپر آہستہ سے بٹھا رہا تھا ،، اور وہ سسکتی ہوئی بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
وہ دو جسم ایک ہوگئے تھے ۔
سامنے میز پہ آدھا کھایا کیک پڑا تھا ۔۔۔
میز کے پاس نیچے زرین کی نائیٹی گری تھی ۔ جبکہ صوفے پہ آریان کی شرٹ اور اس کی برا پڑی تھی ۔۔
وہ کچھ دیر بعد بے حال ہوتی زرین کو آزاد کر گیا تھا ۔۔
اس کے ماتھے پہ اپنے لب رکھتا وہ اس کا سر اپنے سینے پر رکھ گیا تھا ۔۔۔
اگرچہ وہ ساری رات رکنا نہیں چاہتا تھا مگر زرین کی حالت دیکھتا وہ رک گیا تھا ۔۔
وہ اس کی محبت تھی وہ اسے درد دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔ اپنے سکون کی خاطر وہ اس کی اور اپنے بچے کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا ۔۔۔
وہ اس کے سیاہ ملائم بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا ۔۔
اور وہ اس کے سینے سے لگی سو گئی تھی ۔۔
کچھ دیر بعد وہ اٹھا تھا ۔ اور صوفے سے اپنی شرٹ اٹھاتا اسے کے پری پیکر کے برہنہ جسم پہ آہستہ سے پہناتا گیا۔۔
اس کا نازک جسم اسے پھر سے بہکا رہا تھا ،،،
اس کا خود سے کنٹرول ختم ہو رہا تھا ۔۔۔
وہ اس پہ کمفر ٹر دیتا بیڈ سے اٹھ گیا۔۔۔
واش روم سے نکلتا وہ نائٹ سوٹ پہن چکا تھا ۔۔۔
وہ اس کے پاس سونے نہیں گیا تھا ۔۔ کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ وہ اپنے جذبات میں کھو کر پھر سے اس کے جسم کا اسیر ہو جائے گا ۔۔۔ نیند تو اس کی آنکھوں سے بہت دور تھی۔۔
اچانک کچھ یاد آنے پہ وہ آپنے سوٹ بیگ سے ڈائری اور پین نکالتا صوفے پہ جا بیٹھا تھا ۔۔۔
یہ ڈائری بہت پرانی تھی ۔۔ وہ باہر ہوتا تب جبھی کبھار دل کی اداسی ختم کرنے کے لیے اس میں کچھ لکھ لیا کرتا تھا ۔۔
سیاہ موٹی ڈائری کے صفحے پلٹتا ایک نظر وہ بیڈ پہ لیٹی خود سے بیگانہ ہوتی زرین پہ ڈالتا سنہری پین کا ڈھکن کھولتا ڈھکن کو میز پر گرا گیا۔۔
اس کے ہاتھ پین پکڑے کورے کاغذ پہ چلنے لگے۔۔
"" بہت سے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں ،،
میں آریان خانزادہ ان میں سے ایک ہوں ،، میں منہ میں سونے کا چمچ لے کر ہی پیدا ہوا ۔۔ جتنے لاڈ اور پیار سے میں بڑا ہوا یقیناً میں ایک خوش قسمت بچہ تھا ۔۔
لیکن میں کتنا خوش قسمت تھا کہ میں اپنی ذات کے اندر بالکل تنہا تھا وہ جو سارے پل میں اپنوں کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا ،، وہ جو ساری باتیں جو میں کسی بہت اپنے سے کرنا چاہتا تھا ،، میں وہ کبھی نہیں کرسکا ۔۔۔
کیونکہ میرے پاس وہ اپنا تھا ہی نہیں ۔۔۔
باہر رہ کے پڑھنے کے ساتھ میں بہت سی بری عادتوں کا شوقین ہو گیا ۔ وہاں کا ماحول ہی ایسا تھا اور میرے گھر کا ماحول بھی کچھ ویسا ہی تھا ۔
میں شراب کے بغیر اپنا دن شروع کر ہی نہیں سکتا تھا ،، اور میری رات ایک نئی لڑکی کے بغیر نامکمل تھی۔
میں نے عورت کو صرف جسم کی ضرورت کی طرح دیکھنا شروع کر دیا ۔ اور ہر عورت کے ساتھ کھیلنا اور چھوڑنا یہ مجھے بہت مزا دیتا تھا ۔۔۔
میں پاکستان واپس آ کے بھی نہیں بدلا۔ بدلنے کی ضرورت بھی کیا تھی ۔ یہاں سب ویسا ہی تو تھا ۔ لڑکیاں میرے پیچھے پاگل تھیں اور جب انہیں اعترض نہیں تھا میرے سامنے خود کو پیش کرتے تو مجھے کیوں ہوتا ۔
لیکن زندگی اچانک سے تب بدلی جب میری زندگی میں وہ لڑکی شامل ہوئی جو اس وقت میرے بیڈ پہ اپنے برہنہ وجود پہ میری شرٹ پہنے سو رہی ہے ۔
وہ زبردستی میری زندگی میں داخل ہوئی ۔۔ ورنہ شاید میں اس معصوم لڑکی کی معصومیت کو بھی پیروں تلے روند دیتا ۔۔
میں محبت جیسے لفظ پہ یقین نہیں رکھتا تھا ۔۔
لیکن اس کی معصومیت ، اس کی آنکھیں ، مجھے ایک انوکھے احساس میں جکڑتی گئیں اور میرا دل میں خود کیا سے کیا ہو گیا پتا نہیں چل سکا ۔۔
اور جب پتا چلا تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔
وہ کب میرے لیے اتنی ضروری ہو گئی سمجھ نہیں سکا میں ۔۔
اس کی بے اعتباری ، اس کی مجھ سے نفرت مجھے اندر سے توڑ دیتی تھی ۔
یہ جو لڑکی میرے سامنے ہے ،، اس کی محبت پانے کے لیے میں ساری دنیا سے لڑا ہوں ۔۔ میرے اپنوں سے ،، غیروں سے
ہر کسی کو اپنے خلاف کر کے اس کی محبت کو حاصل کیا ہے اور بہت سکون حاصل کیا ہے ۔۔۔
وہ ایک لمحے کو سر کو پیچھے صوفے سے ٹکا کر آنکھیں موند گیا ۔۔ کمرے میں ٹھنڈک ہو رہی تھی ۔۔
زرین تمہیں حاصل کرنا ہی میری زندگی کا حاصل تھا ۔۔
تم سے پہلے بھی سب کچھ تھا لیکن پھر بھی میں تہی داماں تھا ۔۔ لیکن اب تم پاس ہو تو سب لگتا میری دسترس میں ہے۔۔
وہ چلتا بیڈ کے پاس کھڑا ہو کہ اسے سوتے ہوئے دیکھنے لگا تھا ۔۔۔
تم نے مجھے بدل دیا ۔۔ میں ایک جانور تھا ۔۔ وحشی تھا۔
تمہاری محبت نے مجھے وہ بنا دیا جس کا میں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا ،، اب تم سے محبت کرنا فرض ہے مجھ پہ آخری سانس تک ۔۔
میرا بچہ ،،،
میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے بچے کو وہ بچپن نہیں دوں گا جو مجھے ملا ۔ میں اسے وہ سارے لمحات دوں گا جن سے میں محروم رہا ہوں ۔
وہ زرین کے پاس بیٹھا اس کے پیٹ پہ ہلکے سے ہاتھ پھیرتا خود کلامی کر رہا تھا ۔۔۔
وہ اس کے پاس لیٹ گیا تھا۔ وہ اس کی متاع جان تھی ۔۔
وہ اس کا سب کچھ تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر ولاء ۔۔۔
اس وقت ڈرائنگ روم میں قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔۔
ارتضی آفندی اور نورین بھی سکندر ولاء تھے اس وقت ۔۔
کھانے کے دور چل رہے تھے ۔۔
ارتضی اور سکندر شطرنج لگائے بیٹھے تھے ۔۔
ان کی پرانی دوستی پھر سے ایک بار واپس آ گئی تھی ۔
زارا سکندر ترو تازہ ہمیشہ کی طرح مسکراتی نورین آفندی سے باتیں کر رہی تھیں۔
سامنے نیوز لگی تھیں۔۔
جس پہ وقتاً فوقتاً ارتضی اور سکندر تبصرے کر رہے تھے ۔۔
جی تو ناظرین آپ کو بتاتے چلیں کے کچھ دن پہلے ایک نجی تقریب میں مشہور بزنس مین اور سیاست دان سکندر خان کے اکلوتے بیٹے آریان خانزادہ کا ولیمہ پارٹی ایک بہت ہی قیمتی وینیو کے ساتھ دی گئی۔ ۔
ایک طرف آریان کی تصویر نظر آرہی تھی ۔۔ جس میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔
آپ کو بتاتے چلیں کے یہ تقریب سکندر خان کے گھر میں ہوئی جہاں ان کے قریبی جاننے والوں نے شرکت کی ۔۔
ڈی پی او ارتضی آفندی جن سے آپ اچھی طرح واقف ہیں ۔۔ جن کی کارکردگی پہ سب فخر کرتے ہیں ۔۔ ان کی اکلوتی بیٹی زرین خان سے یہ شادی طے پائی گئی۔۔
اب ایک سائیڈ پہ زرین کی تصویر دکھائی جا رہی تھی ۔۔ اس تصویر میں وہ سیاہ فراک میں تھی ۔ جس میں وہ کسی لفٹ کے پاس کھڑی تھی۔ ارتضیٰ آفندی کو یاد آگیا تھا یہ ان کی زرین سے پہلی ملاقات تھی۔ جب سکندر کو گولی لگی تھی ۔۔
شادی ایک نجی تقریب میں کی گئی ۔۔
اب نیوز کاسٹر ان کے ریسیپشن پارٹی کی تصویر ساتھ میں دکھا رہی تھیں ۔۔
یہ کیا میں نے صرف ایک تصویر انہیں دی تھی۔ جو ہماری فیملی فوٹو تھی ۔۔ یہ پتا نہیں کس نے ان کو پورا البم ہی دے دیا ہے۔
سکندر صاحب حیران ہو کے بول رہے تھے ۔۔
کل سے سوشل میڈیا پہ ان کے بیٹے اور بہو کی تصویریں گردش کر رہی تھیں۔۔
مسز زارا فخریہ چہرے کے ساتھ ٹی وی پہ چلتی تصویریں دیکھ رہی تھیں ۔۔
ان کا بیٹا بہت خوبصورت تھا ۔ اور قسمت نے انہیں خوبصورت ہی بہو دی تھی ۔۔
یہ سب تصویریں انہوں نے ہی اپنی دوست کو جو کہ جرنلسٹ تھی ۔ اسے دیں تھیں ۔۔
ان کے انسٹا گرام پہ لوگ کومینٹ میں بہت تعریفیں کر رہے تھے ۔۔
دلہا دلہن ایک ساتھ بہت اچھے لگ رہے تھے ۔۔ دونوں کی جوڑی بالکل پرفیکٹ تھی۔۔
انسٹا پہ بہت سی ریلیز آریان اور زرین کی بن چکی تھیں ۔۔
اور یہ ان کو اچھا لگ رہا تھا ۔۔
ایک بار پھر سے سارے سوشل میڈیا پہ خان فیملی چھائی ہوئی تھی ۔۔ مسز زارا ہر پارٹی میں آج کل بھائی ہوئیں تھیں خوبصورت اور امیر بہو۔
بہت سی ان کی دوستیں رشک کر رہی تھیں اور کچھ حسد ۔۔
زارا سکندر کی خوش بختی پہ۔۔۔
وہ نزاکت سے بال پیچھے جھٹکٹیں مسکرائیں تھیں ۔
وہ یہ بات سکندر کو نہیں بتائیں گی۔
کچھ لوگ کبھی نہیں بدل سکتے تھے ۔۔ ان کی فطرت میں سراہے جانا پسند تھا ۔۔ کسی ملکہ کی طرح ہر ایک پہ حکومت کرنا انہیں پسند تھا۔۔۔
لیکن ایک لمبے وقت کے بعد انہیں ایک بار پھر اپنی من پسند زندگی مل گئی تھی۔ لیکن وہ ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نا دہرانے کا بھی سبق حاصل کر چکی تھیں۔۔۔
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہاں سے بہت دور یاٹ کے عرشے پر کھڑا وہ بہتے پانی سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔۔ ہوا سے اس کے بال اڑ رہے تھے ۔ اور اس کے ماتھے پہ گر رہے تھے ۔۔ ۔
اس کی صاف رنگت پہ ہلکی بھوری ڈارھی اور بھورے بال بہت جچتے تھے ۔
وہ سفید شرٹ ٹراؤزر پہنے کھڑا تھا ۔
وہ سامنے دیکھتا زرین کی آمد سے بے خبر تھا ۔۔
وہ کچھ لمحے تو کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
پھر اس کے سینے پہ ہاتھ باندھتے اس کی کمر سے لگ گئی ۔۔
تب وہ چونکا ،،
اور اس کا ہاتھ پکڑتا اپنے سامنے کر گیا ۔۔
اب منظر کچھ اس طرح تھا کہ زرین کی کمر عرشے کی ریلنگ سے لگی اور اس کا سینا آریان سے لگ رہا تھا ۔۔۔
وہ بھی سفید فراک پہنے ہوئے تھی۔ جو اس کے گھٹنوں تک آرہی تھی۔ اس کی سفید نازک ٹانگیں نظر آرہی تھیں۔۔
آریان کی شرٹ کے اوپر کے بٹن کھلے تھے ۔۔ اس کے سفید سینے پہ ہلکے بھورے بال اچھے لگ رہے تھے ۔۔
تم سے اتنی محبت ہے مجھے زرین کے میں خود کو بھی بھول جاتا ہوں اکثر ۔۔
میں نے قصے کہانیوں میں پڑا تھا محبت میں ایک ایسا مقام آتا ہے جب آپ کو صرف محبوب ہی یاد رہتا ہے ،، اور بس ۔۔
مجھے لگا تھا یہ جھوٹ ہے۔۔
لیکن تم سے ملنے کے بعد مجھے ہر چیز سچ لگتی ہے ۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا ۔ بہت پیارے لہجے میں بولا تھا ۔۔
ہونہہ ۔۔۔ ایسا ہوتا ہے اگر ۔۔۔
وہ کچھ لمحوں کے لیے رکی تھی ۔۔ وہ منتظر تھا اس کی بات کے مکمل ہونے کا ۔۔
اگر محبوب میری طرف حسین اور کیوٹ ہو تو ۔۔۔
وہ اپنے چہرے کے اطراف میں ہاتھ رکھتی بولی تھی ۔
وہ بے ساختہ اس کے اس انداز پہ کھل کے ہنسا تھا ۔۔
کیا ایسا نہیں ہے۔۔۔ وہ اسے ہستے دیکھ کر خفگی سے بولی تھی ۔۔
ہاں ۔۔۔ بالکل ۔۔
تم حسین ہو اور کیوٹ بھی ہو ۔۔
اسی لیے تو میں فدا ہو گیا ۔۔۔ورنہ میں ایسے جال میں کہاں پھنسنے والا تھا ۔۔۔
وہ اس کے سینے پہ نظریں گاڑھے بولا تھا ۔۔۔
وہ اس کی نظروں کے محور سے شرما گئی تھی ۔۔۔
اس کی فراک ہوا سے اڑ رہی تھی ۔۔۔ جسے وہ اڑنے دے رہی تھی ۔۔ جب ہوا سے فراک اوپر کو اٹھتی تو اس کی تھائیز نظر آتیں
میں اکثر سوچتا ہوں۔۔۔
وہ اس کے اڑتے بالوں کو کان کے پیچھے کرتا بولا تھا ۔
وہ اس کے نظر آتے سینے پہ بالوں میں اپنی انگلیاں چلا رہی تھی ۔۔۔
ہمارے بچوں کے بال کس طرح کے ہوں گے ۔۔۔
تمہارے بال سیاہ ہیں جیسے کوئی گہری سیاہ رات ۔۔۔
اور میرے ۔۔
وہ ایک لمحے کو چپ کر گیا تھا ۔۔ اس کی مسکراتی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔ ۔ اس کا پیٹ اب ہلکا سا محسوس ہوتا تھا ۔۔۔ایک نظر اس کے پیٹ کی طرف دیکھا تھا ۔۔
آپ کے بال ڈھلتی شام جیسے ہیں ۔۔
وہ اس کی گردن میں اپنی بانہیں ڈالتی بولی تھی ۔۔۔۔
تم ۔۔
وہ اس کی بات سن کر کھل کے ہنسا تھا ۔۔
تمہیں بھی فلرٹ کرنا آگیا ہے ۔۔۔
وہ اس کی کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کرتا بولا تھا ۔۔۔
آپ سے ہی سیکھا ہے سب۔۔ جو بھی سیکھا ہے ۔۔۔
وہ اس کے گال پہ اپنے لب رکھتی بولی تھی ۔۔۔
اچھا ،،،
وہ آگے کو جھکا زرین کو ریلنگ پہ گرا گیا تھا ۔۔۔
اب منظر کچھ اس طرح تھا کہ زرین کی آدھی کمر ریلنگ سے نیچے تھی ۔۔ اور اس کے اوپر آریان ۔۔۔
تیز چلتی ہوا ان دونوں کے بال اڑا رہی تھی ۔۔
آہستہ رفتار میں چلتی یاٹ ان دونوں کے رومینس کو جیسے انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔
وہ کل رات ہی کینیڈا آئے تھے ۔۔ پچھلی بار آریان یہاں اکیلا آیا تھا۔ جب زرین نے اسے کتنا کچھ کہا تھا ۔
اور اب وہ متاع جان اس کے ساتھ تھی اس کی بانہوں میں ۔۔۔
چائے پیو گی ۔۔۔
کچھ دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا وہ بولا تھا ۔۔۔
ہونہہ ۔۔
وہ آہستہ سے کہہ گئی ۔۔ چائے اسے بہت پسند تھی ۔اور آریان کو کافی ۔۔۔
اوکے ،،
میں ابھی بنا کے لاتا ہوں ۔۔۔
اس کے ماتھے پہ اپنے لب رکھتا وہ سیڑھیاں اترتا نیچے گیا تھا ۔۔۔
زرین کچھ دیر تو کھڑی رہی لیکن پھر اچانک سے اسے کچھ یاد آیا ۔۔۔
او۔۔ نہیں ۔۔
یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔
وہ جلدی سے نیچے بھاگی تھی ،، شکر تھا کہ وہ ننگے پیر تھی۔۔ بھاگنا آسان تھا۔۔
آریان کی خطرناک کوکنگ سکلز سے وہ واقف تھی۔۔۔
آخری دفعہ اسے یاد تھا جب آریان نے سارے اپارٹمنٹ کا حشر نشر کر دیا تھا ایک چائے بناتے ہوئے ۔۔
اب کہیں یہ یاٹ ہی نا اڑا دے وہ۔۔۔
وہ جلدی سے نیچے گئی تھی ۔۔۔
وہ سامنے کھڑا کچھ کھٹ پٹ کر رہا تھا ۔۔۔
آریان ۔۔۔۔
وہ جو آنچ ہلکی کرنے جھکا تھا اس کے آواز پہ چونک کر مڑا تھا ۔ اور چائے کا مگ لڑھکتا ہوا جا نیچے گرا تھا ۔۔۔
او ۔۔ نہیں ۔۔۔
پیچھے ہٹیں میں بناتیں ہوں چائے ۔۔
ارے نہیں میری جان چائے تو بن گئی ہے ۔۔
ایک مگ ہی تو گرا ہے ۔۔ یہ دیکھو ایک مگ اور پڑا ہے ۔۔
بتاؤ کیسی ہے ۔۔
وہ اس سیاہ مگ اس کی طرف بڑھا رہا تھا ۔۔
وہ مسکراتی ہوئی ایک چھوٹا سا سپ لے گئی تھی ۔۔۔
کیسی ہے۔۔
وہ اشتیاق سے پوچھ رہا تھا ۔۔
بہت اچھی بالکل آپ کی طرح ۔۔
وہ کپ نیچے رکھتی مسکراہٹ دباتی بولی تھی ۔۔
اچھا میری طرح۔ ۔
وہ چائے کا مگ پکڑتا ایک سپ لیتا بولا تھا ۔۔
لیکن یہ کیا اگلے ہی لمحے وہ کھانستا ہوا چائے باہر نکال گیا تھا ۔۔
زرین کھل کے قہقہہ لگاتی ہنسی تھی۔۔۔
یہ میری طرح ہے ۔ میں اتنا بد مزا ہوں کیا ۔۔۔۔
وہ مسکراتا اس کی طرف بڑھا تھا۔
اور وہ پیچھے کو قدم لیتی جا رہی تھی ۔۔۔
یہ دیکھیں میرے ہاتھ اور دوبارہ کبھی چائے مت بنائیے گا ۔۔
وہ باقاعدہ ہاتھ جوڑتی کہہ رہی تھی ۔۔۔
اسی لیے تو کہتا ہوں کے کافی پیا کرو ۔
میں وہ بہت اچھی بناتا ہوں ۔۔۔ وہ میری طرح مزہ دار ہے
وہ آنکھ دباتا مسکراتا بولا تھا ۔۔۔
اچھا وہ میری طرح مزہ دار ہے ۔۔۔
وہ اس کی بات اسی کے انداز میں نقل کرتی بولی تھی۔۔
بتاتا ہوں کس کی طرح مزیدار ہے۔۔
وہ اسے ایک ہی جست میں اپنی گود میں اٹھاتا بیڈ روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔
زرین کی ہنسی کمرے سے باہر تک آرہی تھی ۔۔۔
دور ڈوبتا سورج ان کی محبت کا گواہ تھا ۔۔
وہ دن رات جیسے لوگ ایک دوسرے کی محبت میں پور پور ڈوبے تھے ۔۔ ۔۔
ان کی محبت ہر مشکل کو سہنے کے باوجود برقرار تھی۔۔۔
وہ دونوں مشکلات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہے تھے ۔۔
کڑے وقت میں وہ دھوپ چھاؤں جیسی لڑکی اس کا ہاتھ تھامے کھڑی رہی تھی ۔۔
اس کی بانہوں میں اس کا سکون تھا۔ اس کی قربت اس کا نشہ تھی۔
زندگی میں ایک شخص کو ایسا ہونا ہی چاہیے تھا جس کی موجودگی سکون ہو اور جس کی قربت نشہ ہو، جو کرتے ہی ہر مشکل بھول جائے ۔۔۔
زرین آریان کی انکھوں میں دیکھتی سوچ رہی تھی ۔۔۔
وہ رب کی شکر گزار تھی اس کی بنجر زمین جیسی زندگی میں وہ شخص بہار کی طرح تھا ۔
وہ بے اختیار اس کے سینے پہ سر رکھ گئی ،،
اس نے اس کے گرد اپنی بانہیں لپیٹ دیں ۔۔۔
اس کا سکون تھا وہ
اس کا نشہ تھی وہ
0 Komentar