موسٹ بولڈ اردو ناول
از قلم عنائزہ بتول
Episode 18
قسط نمبر 18
غروب ہو رہا تھا ،، آسمان پہ ہلکی لالی چھائی ہوئی تھی ،،، ایسےمیں بلیک لینڈ کروزر تیز رفتار سے سڑک پہ جارہی تھی ،، شام کے وقت زیادہ ٹریفک بار بار گاڑی کی سپیڈ میں کمی کا باعث بن رہی تھی ،،
ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا آریان خانزادہ ،
آنکھوں پہ سیاہ گلاسز لگائے ،، اور بلیک ہی پینٹ شرٹ میں ملبوس ، بازو کوہنیوں تک موڑے ہوے تھا ، ،، اس کا سیاہ کوٹ پیچھے والی سیٹ پہ ہینگر کیا ہوا پڑا تھا ،،،
پچھلی سیٹ پہ بہت سی ٹوکریاں اور تحفے پڑے ہوئے تھے غالباً دینے والے نے بہت پیار سے دیے تھے ،،،
سارا فوکس سڑک پہ رکھے ہوئے تھا ، جیسے ہی وہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا تھا اچانک سے اتنی زیادہ ٹریفک ہو گئی تھی ،، اوپر سے شام کا وقت تھا ،، وہ سخت کوفت کا شکار ہو رہا تھا،،، پچھلے ایک گھنٹے سے زیادہ دیر سے وہ مسلسل ڈرائیو کر رہا تھا،،
سگنل ریڈ ہونے کی وجہ سے اس نے ایک نظر اپنے دوسری طرف ڈالی ،، جہاں وہ ڈرائیو کرتا گاہے بگاہے دیکھتا آرہا تھا ،،
وہ دشمن جان بے سدھ سو رہی تھی ،، جیسے اپنے بیڈ روم میں سو رہی ہو ،، وہ سیاہ فراک پہنے ہوئے تھی ،،
اسے یاد تھا آج دوپہر کو وہ سرخ فراک ہاتھ میں لیے کھڑی تھی لیکن جیسے ہی اس نے آریان کو سیاہ ڈریس میں دیکھا تو فوراً سے سیاہ فراک نکال لیا تھا ،،
اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اسے کچھ اس طرح سے محبت ہو گی ،، زرین کا اس کی زندگی میں آنا ،، اور پھر اس کی زندگی بن جانے کا سفر کب طے ہوا وہ یہ جان ہی نہیں سکا تھا ،،،
ایک مسکراہٹ اسے لبوں پہ آگئی تھی ،، ہلکی مونچھوں تلے مہرون ہونٹوں کی مسکراہٹ ،، جن سے گالوں میں دو گڑھے ابھرتے تھے ،، بہت جان لیوہ تھی مسکراہٹ ،،
لمبے سیاہ بال کھلے تھے جن کی کچھ آوارہ لَٹِیں اس کے سفید و گلابی رخساروں کو بوسے دے رہے تھے ،،، گہری آنکھیں زور سے بند تھیں۔ جن پہ لمبی پلکیں سایہ کر رہی تھیں ،، چھوٹا سا ناک جس میں نازک سا ایک موتی چمک رہا تھا ،، اور گلابی ہونٹ جو کہ تھوڑے سے کھلے ہوئے تھے ،،
ڈوپٹے سے بے نیاز ،، بے سدھ ،،۔ سیٹ بیلٹ کی وجہ سے اس کے سینا واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوا نظر آرہا تھا ،، اس کے زرخیز سینے پہ بنے حسین ابھار اس کے سانس لینے پہ اپنے زندہ ہونے کا احساس بخوبی دلا رہے تھے ،،،
اس حسینہ کا یہ بے سدھ انداز اس کا خود پہ کنٹرول ختم کر رہا تھا ،، اسکا ایمان ڈگمگا رہا تھا ،،۔ اس کے گلابی آدھ کھلے لب اسے جیسے دعوت دے رہے تھے ،، صاف شفاف چہرہ اس کی معصومیت کو ثابت کر رہا تھا ،،
وہ بے ساختہ اس کی جانب جھکا تھا ،، ابھی وہ اپنے لبوں میں اس کے لب قید کرنے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے ہارن سنائی دینے لگے ،، وہ جلدی سے پیچھے ہٹتا گاڑی آگے بڑھا گیا ،،
وہ اس کے سونے پہ سخت چڑ رہا تھا ، اوپر سے یہ ٹریفک آدھے کا گھنٹہ کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں ہو رہا تھا،،،
بابا کے بلانے پہ وہ زرین کو ساتھ لیے سکندر ولاء جارہا تھا ،، سکندر ولاء جو کہ اس کا اصلی گھر تھا ،، جس گھر کی وہ بہو تھی ،،۔ اسے وہیں رہنا تھا ،،
رحمت آپا نے پتا نہیں کتنی چیزیں تیار کر دیں تھیں ، ان دونوں کے لیے وہ بہت خوش تھیں ،، آخر کار وہ ایک نئی زندگی شروع کرنے جا رہے تھے،،
🥀🥀🥀
یہ منظر یہ جگہ کچھ کچھ ویسی ہی تھی جیسے آج سے کچھ دن پہلے تھی ،، جب ولید کو یہاں چھپا کے رکھا تھا ،،
لیکن ایک بار یہ جگہ آباد تھی ،، اب کی بار یہاں کون تھا
؟؟
اندر کمرے میں آؤ تو بستر پہ ایک کمزور سا وجود پڑ تھا ، جو بظاہر تو زندہ نظر آرہا تھا ،، جس کی آنکھیں چھت سے بہنیں ہوئیں تھیں ،،
اب اگر آج سے تین پیچھے آؤ تو ،
یاد آتی ہے وہ رات جس میں دو جانور ایک انسان کا جسم نوچ کر کھا رہے تھے ،،
حاشر اور اس دوسرے شخص کے جانے کے بعد پتا نہیں وہ کتنی دیر تک بے سدھ پڑی رہی ،، وہ جو اسے مر چکا سمجھ کر چھوڑ گئے تھے ،، یہاں اس کی لاش کو جلنے اور سڑنے کے لیے چھوڑ گئے تھے ،،
پتا نہیں کتنے گھنٹے بعد اس کے مردہ وجود میں حرکت ہوئی تھی ،، اسے اپنے حواسوں میں آنے میں کتنا وقت لگا تھا اسے نہیں پتا تھا ،، لیکن درد کا احساس مرنے کے خوف نے اس کے اندر بچی کھچی ہمت کو یکا کیا تھا ،،
وہ گرتی پڑتی خود کو گھسیٹتی اپنے پرس کے پاس پہنچی تھی موبائل نکالتے ہی اس کے ذہن میں صرف ایک شخص کا نام تھا،،" آریان خانزادہ "
نہیں معلوم تھا وہ رات اس پہر اس کا فون بھی اٹھاتا یا نہیں لیکن پھر بھی ایک یقین تھا کہ وہ آئے گا اسے بچانے ،،
کال اٹھا چکا تھا وہ ،, ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اسے وہ جتنا بتا سکتی تھی بتا چکی تھی ،، اور ٹھیک آدھے گھنٹے وہ خود تو نہیں آیا لیکن کامران آگیا تھا ،،،
اور جہاں اس نے کبھی ولید کو چھپایا تھا آج مونا کو وہاں آریان نے چھپایا تھا ،،
وہ اگلے دن اس کے پاس آیا تھا ،، کیونکہ وہ مری تھا ،، اسلام آباد نہیں ،،
اور کسی پہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا تھا تو ایک بار پھر وہی شخص کے حوالے اسے کر دیا گیا تھا،، جس نے اس کی کچی عمر میں اسے برباد کیا تھا ،،
وہ ناجانے کتنے دن بعد ہوش میں آئی تھی ،، تو اپنے پاس ڈاکٹر افضل کو دیکھ کر چونک گئی تھی ،، اور تبھی اسے سامنے سے آتا آریان نظر آیا ،،
وہ اسے ساری بات بتا رہا تھا ،، اس سے معافی مانگ رہا تھا کہ وہ اس کا خیال نہیں رکھ سکا ،، اسے بتا رہا تھا کہ وہ ٹھیک ہو جائے گی , لیکن وہ
صرف اسے دیکھتی جا رہی تھی ،،اگر اس رات وہ نا اس کی بات سنتا ،، نا کوئی اسے بچاتا تو ،،،
مونا ،،
تمہاری دوائیوں کا ٹائم ہو گیا ہے ،،، اٹھ جاؤ ،،
وہ جو کسی سوچ میں گم تھی اس کی آواز پہ حال میں لوٹی تھی ،، کمرے میں کوئی نہیں تھا ،، اس کی مردہ زندگی تھی اور وہ تھا ،، جو کبھی اس کے بچپن کی محبت ہوا کرتا تھا ،،، اور اب جس سے وہ نفرت کرتی تھی ،،
وہ اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ کیوں ہے اس کے پاس کیوں وہ اس کا خیال رکھ رہا ہے ،، کیوں ؟؟
وہ اس کے ہاتھوں کچھ بھی نہیں کھانا چاہتی تھی ،، وہ یہ برتن اس کے منہ پہ مارنا چاہتی تھی ،،
لیکن۔،،
وہ کوشش کے باوجود خود کے اندر اتنی طاقت نہیں پیدا کر سکی تھی ،،،
دوائیاں لے کر وہ آنکھیں موند چکی تھی ،،
اب زندہ رہنے کی کوئی وجہ تو نہیں بچی تھی ،، بس پھر بھی زندہ تھی وہ ،،،
🍁🍁🍁
دوسری طرف اگر سکندر ولاء میں آؤ تو اس وقت لان میں مسز زارا اور سکندر صاحب چلتے نظر آرہے تھے ،، ہلکی ہوا چل رہی تھی ،، لان میں لگے مختلف پھول اپنی خوشبو سے ماحول کو ترو تازہ کیے ہوئے تھے ،،
مسز زارا ہلکے سبز رنگ کا لان کا سوٹ ملبوس کیے ہوئے تھیں۔ شولڈر کٹ بالوں کو آدھا باندھ رکھا تھا ،، چہرہ پہ تازگی و شادابی برقرار تھی ،،
سکندر صاحب ٹراؤزر شرٹ میں واک کر رہے تھے ،، گو کہ اب ان کی طبیعت ٹھیک تھی ،، وہ اب آسانی سے چل پھر سکتے تھے لیکن ابھی انہوں نے آفس جوائن نہیں کیا تھا ،، اور ویسے بھی الیکشن ہو چکے تھے ،، ان کی حکومت قائم ہو چکی تھی ،،
ابھی وہ چند دنوں کی چھٹیاں گزار رہے تھے ،،
ویسے بھی آریان کے ہوتے ہوئے انہیں کسی بات کا مسئلہ نہیں تھا ،،
وہ جو ہلکے مسکراتیں واک کر رہی تھیں ،، اچانگ فون کے آنے پہ چونکیں تھیں ،،
آہ ،،، سکندر ذرا میں ان سے بات کر لوں ،، یہ لوگ بات بات پہ پارٹی رکھ لیتے ہیں ، میں انہیں منع کرتی ہوں کہ آج تو میری بہو آرہی ہے آج میں ایک ساس ہوں ،، بلکہ ماں ہوں صرف ،،،
سکندر صاحب کو موبائل سکرین پہ غور سے دیکھتا پا کر مسز زارا موبائل کی سکرین کو نیچے کی طرف کر چکی تھیں ،، وہ جلدی سے بات بناتیں واپس چئیرز کے پاس جا رہی تھیں ،،
پیچھے سکندر صاحب افسوس سے سر ہلاتے انہیں دیکھ رہے تھے ،،، اٹھائیں سال گزارے تھے اس عورت کے ساتھ ، وہ تو ان کی ہر ایک رگ رگ سے واقف تھے۔ ،،
ہیلو ،، سوہا ،،
تمہیں کتنی دفعہ تو کہا ہے میسج کیا کرو پہلے جب کوئی خاص بات ہو ،،
ہاں کہو،،
وہ کال ریسیو کرتیں ہی دبا دبا چلائی تھیں ،،
اب دوسری طرف کی بات سنتیں وہ پریشان ہو چکی تھیں ،،
کیا ابھی ؟؟؟
پاگل ہو گئی ہو ،، پارسل سینڈ کرنے سے پہلے مجھے پوچھ تو لیتی ،،
دوسری جانب سے پھر کچھ کہا جا رہا تھا ،،
اوہو تو تم نے ایسے امپلوائے کو رکھا کیوں ہے جو تمہارے شہر سے باہر ہونے پہ کسی کی رپورٹ کسی کو پارسل کر رہا ہے ،،،
اب بتاؤ میں کیا کروں ،،،
دوسری جانب سے کچھ سنتی وہ بیچ میں ہی بات کاٹ گئیں تھیں ،،
ہونا کیا ہے آریان اور زرین آرہے ہیں ،، ان کا ریسیپشن کرنا ہے سکندر جو کہہ دیں وہ تو پھر ہو کر ہی رہتا ہے ،،
خیر تم نے بتایا نہیں کہ اس لڑکی کے سیمپل ارتضیٰ سے ملتے ہیں یا نہیں ،،،
وہ ڈاکٹر سوہا کی بات سن رہیں تھیں اور ایک نظر ان کی طرف آتے سکندر صاحب پہ بھی ڈال رہیں تھیں ، انہیں جلدی فون بند کرنا تھا ،،
کیا مطلب ہے میں خود دیکھ لوں ،،، سوہا وہ لڑکی ارتضیٰ کی بیٹی ہے ،، ہے نا ،، اسی لیے تم مجھے مل کے یہ بات بتانا چاہتی تھی ،،، ایسا ہی ہے نا ،،
دوسری طرف سے کچھ کہا گیا تھا جس کے جواب میں مسز زارا فون بند کر چکی تھیں ،،
کیا ہوا تمہاری کولیگز ایگری نہیں ہوئیں کیا ،، پارٹی کینسل نہیں ہوئی کیا ،،،
سکندر صاحب مسز زارا کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں دیکھ سکتے تھے ،،،،
کونسی پارٹی ،، ؟؟
او اچھا ہاں وہ پارٹی ،، جی وہ ہو گئی ہے بس وہ ذرا اپ سیٹ ہو گئیں ہیں ،، آپ تو جانتے ہیں نا کہ ہر محفل کی جان تو میں ہوتی ہوں ،،
وہ مسز زارا کو بغور دیکھتے کرسی پہ بیٹھ گئے تھے ،،
زارا کیا کوئی ایسی بات ہے جو مجھے نا پتا ہو ،،
یا تمہیں وہ بات مجھے بتانی ہو ،،
اگر کوئی ایسی بات ہے تو مجھے بتا دو اس سے پہلے کہ کوئی مسئلہ ہو ،
سکندر صاحب مسز زارا کا ہاتھ تھامے کہہ رہے تھے ،،
نہیں ،،، نہیں تو ،، بھلا کیا بات ہو گی ،، میں آج کل ڈائٹنگ کر رہی ہوں ،، اور گرمی بھی آگئی ہے اب تو ،، موسم میں حرارت ہوتی ہے نا ،، اب۔
خیر میں جاکے زارا کھانا دیکھ لوں ساری ڈشز بن گئیں ہیں یا نہیں ،،، آپ کے لیے چائے بھجواتی ہوں ،،
مسز زارا ان سے اپنا ہاتھ چھڑ واتیں جلدی سے اندر چلی گئیں تھیں
ہونہہ ،،، ” سوال گندم جواب چنا “۔
زارا تم کبھی نہیں بدلو گی ،، تمہارے راز کبھی ختم نہیں ہوں گے ،، تم نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ،،
تبھی گیٹ سے سفید بی ایم ڈبلیو اندر داخل ہوئی ،،
سکندر صاحب جانتے تھے یہ گاڑی کس کی ہے ،،،
اسی لیے وہ پریشان ہو گئے تھے ،،، ابھی تو آریان بھی آنے والا تھا ،، اگر اس نے ان کو یہاں دیکھ لیا تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا ،،،
سامنے سے ارتضیٰ آفندی اور مسز نورین آفندی چلتے ہوئے آرہے تھے ،،، مسز نورین آفندی مہرون کلر کی ساڑھی پہنے ، بالوں کو ڈائی کر کے ایک طرف کیے ہوئے تھیں ،، جب کہ ارتضیٰ آفندی نیلے کوٹ پینٹ میں تھے ،،
بھئی سکندر تمہیں پریشان تو نہیں کر دیا ہم نے بنا بتائے
آکر ،،
ارتضیٰ آفندی سکندر صاحب کے گلے ملتے ہوئے بولے تھے ،، جبکہ مسز نورین آفندی چئیر پہ نزاکت سے بیٹھ چکی تھیں ،،
نہیں،، نہیں ، تمہارا اپنا گھر ہے جب چاہے آؤ ، تم کونسا مہمان ہو کوئی جو پہلے بتاؤ گے پھر آؤ گے ،،
سکندر صاحب ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے،، لیکن آج وہ ارتضیٰ کے اس طرح آنے پہ واقعی پریشان تھے ،، آریان پہلی دفعہ زرین کو لے کر آرہا تھا ،، آج کی شام زرین کے نام تھی ،،
یہی تو ،،، یہی میں ان سے کہہ رہا تھا ،، ( وہ نورین آفندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے) سکندر اور میں اتنے سال تک ایک اپارٹمنٹ میں رہتے آئے ہیں ایک کمرے میں،، ( ارتضیٰ آفندی ایک آنکھ کا کونا دباتے ہنستے ہوئے بولے تھے ) ،،،یہاں تک کہ ایک ہی باتھ روم بھی استعمال کرتے رہے ہیں ،، اس لیے
جب دل چاہے ہم تب ان سے ملنے آسکتے ہیں،،،
جبکہ سکندر صاحب بھی ان کا ساتھ دینے کو ہنس دیے تھے،،
اصل میں نورین پینٹنگ ایگز یبیشن رکھ رہی ہے اس ہفتے کو اس لیے ہم سب کے ہاں یہ دعوت نامے دے رہے تھے ،،تو آپ کی طرف بھی آگئے،،
اچھا ،،، اچھا ،، بہت اچھا کیا ،، میں تو نہیں آپاؤں گا لیکن زارا ضرور آجائے گی ،،
ابھی وہ لوگ باتیں ہی کر رہے تھے کہ گاڑی کی ہارن پہ گارڈز فوراً الرٹ ہوتے دروازہ کھول رہے تھے ,,
مسز زارا بھی آریان کی گاڑی کی آواز سنتیں باہر آگئیں تھیں ، انہیں زرین کا استقبال بھی تو کرنا تھا ،، چاہے آریان کو دکھانے کے لیے ہی سہی ،،
دوسری طرف آریان جو کے زرین کے ساتھ کھڑا مسز زارا سے بات کررہا تھا ،، اس کی نظر بھی ارتضیٰ آفندی کی جانب اٹھی تھی ،،
ارتضیٰ آفندی بھی اسی کو دیکھ رہے تھے ،،
دونوں کے درمیان ایک سرد دیوار محسوس ہو رہی تھی ،،
اس کی وجہ ان کی وہ ملاقات تھی جو کہ دو دن پہلے ہوئی تھی ،،،
🥀🥀🥀
وہ کورٹ روم سے باہر نکل رہا تھا ،،
عثمان کے ساتھ چلتا ہوا وہ سامنے آرہا تھا ،،۔
کل رات ہی اسے مونا کی کال آئی تھی ،،
اور اب کامران سے پتا چلا تھا ،، حاشر اتنا گر سکتا تھا
وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،،
وہ ساری بات عثمان کو مل کے بتانا چاہتا تھا ،،
آج اس کے کیس کی ہیرنگ بھی تھی ،،
حاشر کو تو میں پکڑنے کی بجائے قتل ہی کر ڈالوں گا اب ،،
اسے نا تو ہماری دوستی کی کوئی پرواہ ہے اور نا ہی کسی اور چیز کی ،،
وہ بظاہر اس کی بات سنتا سامنے دیکھ رہا تھا لیکن کوئی نہیں جانتا تھا اس کے اندر کیسی آگ لگی ہوئی تھی ،،
بس نہیں چل رہا تھا حاشر کو جلا کے ہی راکھ کر دیتا
وہ عثمان کو ساری بات بتا چکا تھا ،،
ولی کیسا ہے اب ،،۔
کافی مصروفیات کے باعث میں اس سے ملنے نہیں جا سکا ،،
آریان عثمان سے پوچھ رہا تھا،،
ہاں آج صبح میں شانزے کو ہاسپٹل چھوڑ کر آرہا ہوں ،،
ساتھ میں آئزہ کو بھی ولی سے ملوا کر آرہا ہوں ،،
کیا ،،، آئزہ کو ولی سے ،،،
آریان اس کی بار سن کر چونک گیا تھا،،،
ہاں میں اس بارے میں تم سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن وہی ہم اتنے مسائل میں ہیں کہ کچھ یاد نہیں رہتا یا ٹائم نہیں ملتا ،
پہلے تو وہ شاک میں رہی ،،پھر ولی کا ہاتھ پکڑ کر روتی رہی ،، لیکن ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ وہ آہستہ آہستہ نارمل ہو جائے گی ،، ابھی وہ خود سے بھی شرمندہ ہے ،،
ہونہہ ،، ٹھیک کیا ہے ،، ہو سکتا ہے اسی طرح وہ دونوں زندگی کی طرف واپس لوٹ سکیں ،،
تبھی وہ اس سے بات کرتے اس کی نظر سامنے گئی جہاں ارتضیٰ آفندی اسی کو دیکھتے مسکرا رہے تھے ،،،
وہ وہیں رک گیا تھا ،،۔ ان کی مسکراہٹ کچھ کہہ رہی تھی
جیسے کہ وہ جان گئے ہوں کہ وہ ان کا ماضی چھان رہا ہے ،،
عثمان بھی رک کر ان دونوں کو دیکھنے لگا تھا ،،
تبھی ارتضیٰ آفندی قدم قدم چلتے ان کی جانب آگئے اور آنکھ کے اشارے سے عثمان کو جانے کو کہا ،،
عثمان کی کیا مجال تھی کہ وہ منع کرتا ،،، ارتضیٰ آفندی ڈی پو تھے اور وہ ان کے انڈر کام کرتا تھا،،
موسم اچھا ہے ،،۔ اور لگتا ہے اس آخری کیس سے بھی تمہاری جان چھوٹ گئی ہے ،، اب بس کوئی اور کیس نا کھل جائے ،،
عثمان جا چکا تھا ،،، ارتضیٰ آفندی اسے ہاتھ کے اشارے سے ساتھ چلنے کو کہہ رہے تھے ،،
جی موسم تو اچھا ہے ،، لیکن آپ کے مزاج اچھے نہیں لگ رہے ،، سر ،،
وہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے ،، آریان کے سر کہنے پہ وہ ہلکا سا مسکرائے ،،،
دیکھو آریان،، میں تم سے صاف صاف بات کرتا ہوں ،،
تم جب پیدا ہوئے تھے نا میں نے تب تمہیں ان ہاتھوں میں اٹھایا تھا،، ایک لمبے عرصے تک تم مجھ سے اپنے باپ سے بھی زیادہ اٹیچ تھے ،،،
میں جانتا ہوں کہ اب والا آریان اور بچپن والے آریان میں بہت فرق آچکا ہے ،، تم اب معصوم نہیں رہے ،، تمہاری معصومیت وقت نے چھین لی ہے ،، یا پھر تمہارے باپ کی سیاست اور تمہارے کاموں نے ضرورت سے زیادہ محتاط بنا دیا ہے ،،
لیکن میں تمہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا پیچھا کرنا چھوڑ دو ،، میرا تمہاری ماں کے ساتھ کوئی غلط تعلق کبھی نہیں رہا ،، اگر تم اس لیے میرے ماضی میں جھانکنا چاہتے ہو تو ،،
میرے ماضی میں جو درد میں نے چھپائے ہیں انہیں چھپا رہنے دو ،،
”ورنہ “
وہ اپنی بات کر کے کچھ لمحے رکے تھے آریان کی آنکھوں میں دیکھا ،، جس کا قد ان سے بھی نکل رہا تھا ،،
”ورنہ کیا ،،، “
آریان بھی ان کی آنکھوں میں دیکھتا جیسے ان کی آخری حد جاننا چاہتا تھا
ورنہ میں تمہارا لحاظ زیادہ دیر نہیں کر سکوں گا ،،
میں ایک پولیس آفیسر ہوں یاد رکھنا ،، کہتے ہیں کہ دشمن بھی کبھی پولیس والوں کے ہاتھ نا لگے ،،
اچھا تو کیا ،، اگر کوئی پولیس والا اپنے ذاتی بدلے وردی کی آڑ میں لے رہا ہو پھر ،، کسی کو پولیس مقابلے میں قتل کر دے یا پھر کسی کو ڈاکؤں کے ہاتھوں قتل کروا دے یا کسی کا خاندان ہی مٹا دے پھر ،،،
اس پولیس والے کی سزا کیا ہوتی ہے ،،،
میں یہ جاننے کے لیے کافی کوشش کر رہا ہوں ،،
آریان،،،، تم میرے لیے میرے بچوں کی طرح ہو ،،
میں تمہیں آخری دفعہ کہہ رہا ہوں میرے ماضی سے دور رہو ،، میرے ماضی میں کچھ بھی تمہارے لیے دلچسپ نہیں ہو گا ،،
مجھے مجبور نا کرو کیونکہ میں نے بھی بہت کچھ سن رکھا ہے تمہارے بارے میں
کس طرح تم نے اس لڑکی کو اپنے فارم ہاؤس میں اغواہ کیا اور تم اتنا گر گئے کہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس لڑکی کی عزت کو ,,
بس ،،، ایک اور لفظ نہیں ،،،
اگر آپ میرا لحاظ کر رہے ہیں نا تو میں بھی آپ کا لحاظ کر رہا ہوں ،،۔ لیکن آپ میری بیوی کے بارے میں ایک لفظ نہیں بول سکتے ہیں ،،
مجھے چھوٹا بچہ مت سمجھیے گا آپ میرے ماں باپ کو تو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن مجھے نہیں ،،،
وہ اپنی بات مکمل کرتا وہاں سے چلا گیا تھا ،،
لیکن ارتضیٰ آفندی سوچ رہے تھے کہ اسے کیسے روکا جائے۔ ،
اسے روکنا ضروری تھا ،، ورنہ ایک بار پھر وہی دردناک ماضی کے عذاب جنہوں نے ساری زندگی سکون سے جینے نہیں دیا اب وہ مرنے نہیں دیں گے ،،،
آریان کو روکنے کا ایک ہی رستہ تھا وہ لڑکی ،،
لیکن وہ لڑکی انہیں بہت اپنی سی محسوس ہوتی تھی ،،
وہ کیسے اس کی عزت اچھال سکتے ہیں ،، لیکن اگر آریان نا رکا تو ان کا ہر رشتہ اپنی عزت کھو دیتا،،،
اس لمحے وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی کمزوریوں کو تلاش کر کے ایک دوسرے کو روکنا چاہتے تھے ،،، یہ جانے بغیر کہ ان کی کمزوری اور طاقت تو ایک جیسی تھی ،،
لیکن وقت آج سے تین بعد ہی ان دونوں کو حقیقت کے سامنے لا کھڑا کرنے والا تھا یہ وہ نہیں جانتے تھے ،،،
☀️🔥☀️🔥
موجودہ دن
سکندر ولاء ،،
شام کا وقت ،،،
وہ زرین کے ساتھ کھڑا تھا ،،، جبکہ مام زرین کو گلے لگائے ہوئے ساتھ لیے لان میں جا رہی تھی۔ ،، جہاں ارتضیٰ آفندی اور نورین آفندی کھڑے تھے ،، جبکہ سکندر صاحب بھی آگے آگے زرین کو پیار دے رہے تھے،،
لیکن دو ایسے لوگ بھی تھے جو ایک دوسرے کو سرد نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ،، جبکہ مسز نورین آفندی زرین کو دیکھ کر پھر سے پریشان ہو چکی تھیں ،، پچھلی ملاقات کی وجہ سے کتنے دنوں ان کی اور ارتضیٰ کی بات چیت بند رہی تھی , اور اب ایک بار پھر وہ لڑکی سامنے تھی ،،
وہ لڑکی دکھنے میں تو بالکل مریم جیسی تھی ،، وہی نقوش وہی سراپا ،، لیکن اس کی آنکھیں بالکل ارتضیٰ آفندی جسیی تھیں ،،
وہ۔ جانتی تھیں وہ بچی مر چکی تھی ،، اس کا زندہ ہونا ممکن ہی نا تھا ،،
ہیلو ،، انکل ،، ہیلو آنٹی ,
آریان بھی چار و ناچار ان کو مخاطب کرتا بیٹھ گیا تھا،،
آج تو ساری فیملی مکمل نظر آرہی ہے ،، کیا بات ہے سکندر
ارتضیٰ آفندی کی نظریں زریں کے سراپے میں الجھی ہوئیں تھیں جبکہ سوال سکندر صاحب کے لیے تھا،،
ہاں ،، اب سے زرین اور آریان یہیں رہیں گے ،، میں اس سنڈے کو ریسیپشن رکھ رہا ہوں دونوں کا ،،
زرین کو عجیب بے چینی سی ہو رہی تھی ،، سامنے بیٹھے ارتضیٰ آفندی کی نظریں اس کے چہرے پہ تھیں ،،
پاس بیٹھا آریان بھی محسوس کر چکا تھا،،
آپ سب لوگ چاہے پییں اور میں اپنی بہو کے لیے کچھ لے آؤں۔ ،
مسز زارا کہتیں اٹھ گئیں تھیں،، مہمان زیادہ ہو گئے تھے اس لیے ابھی اور ڈشز بنانا تھیں ،، اور آریان ابھی تک اس رات کے بعد ٹھیک سے بات نہیں کر ریا تھا ،، اسے بھی منا نا تھا ،،
ٹھہریں آنٹی اگر کسی چیز میں کوئی ہیلپ چاہیے تو میں کروا دیتی ہوں ،،
زرین مسز زارا کے اٹھتے ہی کھڑی ہوتی کہہ رہی تھی ،،
ارے یہ آنٹی کون ہے ،، آریان کی طرح مجھے مام کہا کرو ،،
اور اس گھر میں اتنے سارے ملازم میں نے کیوں رکھے ہیں جو پھر بھی تمہیں کام کرنا ہے ،،
لیکن پھر آجاؤ تمہیں گھر دکھاتی ہوں ،، کچن بھی دیکھ لینا ،، ہوسکتا ہے کسی دن ملازم کی جگہ تمہاری ضرورت پڑ جائے ،،
کہتے ہی ان کی نظر آریان پہ گئی تھی جو کہ انہیں ہی گھور رہا تھا ،،
وہ زرین کو ساتھ لیے اندر کی جانے بڑھ گئیں تھیں، ،
اور آریان بیٹا آج کل کیا مصروفیات ہیں ،، بہت مصروف رہنے لگے ہو ،، کبھی چکر کی لگا لیا کرو ،،
ارتضیٰ آفندی آریان کی طرف دیکھتے چائے کا سپ لے رہے تھے،،،
کچھ خاص نہیں انکل بس کچھ لوگوں کے گناہوں کے پیچھے ہوں ،، بہت جلد انہیں عبرت ناک انجام تک پہنچا کے دم لوں گا ،،۔
🥀🥀🥀
صاحب یہ پارسل آیا ہے ،،
تبھی سکیورٹی گارڈ ہاتھ میں ایک پیکٹ لیے آیا تھا آریان چونکے نزدیک بیٹھا تھا اس وہ پارسل پکڑ چکا تھا ،،
فرزانہ جاؤ جا کے یہ مام کو دے آؤ ،،
جس پہ مسز زارا کا نام دیکھ کر وہ میڈ سے مخاطب تھا جو کہ ٹیبل صاف کر رہی تھی ،،
ٹھہرو ،، تم جاؤ ،،
کچھ لمحے بعد پتا نہیں ذہن میں کیا آیا کہ وہ فرزانہ کو روکتا اس سے پارسل واپس لے چکا تھا،،
سکندر صاحب ایک نظر اس کی طرف ڈال کے پھر سے باتوں میں مشغول ہو گئے تھے ،،
کچھ سوچتا وہ پارسل کھول چکا تھا ،،
خاکی سے لفافے کو چاک کرنے لگا تھا ،
جیسے جیسے وہ رپورٹس پڑھ رہا تھا اس کے چہرے پہ ایک کے بعد ایک رنگ گزر رہا تھا ،،
سکندر صاحب کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑے کاغذ پہ گئی تو وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ کونسا کاغذ ہو سکتا ہے ،،
زارا ،،،،
وہ آنکھیں میچتے اب آگے آنے والے طوفان کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے ،،
لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ آج انہیں بھی ایک شاک ملنے والا تھا
آریان کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ،، اس رپورٹس میں ارتضیٰ آفندی کا نام کیا کر رہا تھا،،،
یہ کیسے ہو سکتا ہے ،،
99.99٪ زرین ارتضیٰ آفندی کی بیٹی تھی ،،،
یہ کیسے ہوسکتا تھا ،،
وہ رپورٹس نیچے کرتا ارتضیٰ آفندی کو دیکھنے لگا ،، ۔ اور ایک نظر سامنے سے زرین کو دیکھا جو کہ مسز زارا کے ساتھ مسکراتی ہوئی چلتی آرہی تھی ،،،
یہ کیا بکواس ہے ،،
یہ شخص ،،،۔ یہ رپورٹس فیک ہونگی ،، لیکن مام ایسا کیوں کریں گی ،،،
مسز زارا کے ہاتھوں میں چھوٹا سا جیولری باکس تھا ،، آریان کے ہاتھ میں رپورٹس دیکھ کر ان کی ہمت جواب دے گئی تھی ،،
حالت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ارتضیٰ آفندی اور مسز نورین بھی چیزوں کو نوٹس کرنے لگے تھے ،، ان دونوں کو بھی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ ہو رہا تھا۔،،،
آریان
آریان ،،
رکو ،، میں تمہیں سمجھاتا ہوں ،،
سکندر صاحب آریان کو غصے میں جاتا دیکھ کر پیچھے سے بولے تھے ،، یہ تماشا ارتضیٰ کے سامنے نہیں ہونا چاہیے تھا ،،
کیا ہے یہ ،،،
وہ رپورٹس مسز زارا کے آگے پھینکتا بولا تھا ،،
جبکہ وہ کاغذ کا ٹکڑا جو انکی زنگیاں بدلنے والا تھا ،، میز پہ ارتضیٰ آفندی کے سامنے جا گرا تھا ،،
جسے وہ اٹھاتے پڑھنے لگے تھے ،،
جو اس میں لکھا ہے وہ جھوٹ ہے نا ،،
بتائیں کہ یہ فیک رپورٹس تیار کرائیں ہیں آپ نے ،، مجھ سے اپنی بات منوانے کے لئے،،
زریں ہونق بنی دیکھ رہی تھی ،، اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی ،، کیا ہو رہا تھا ،،
بتائیں ،،،
بولتی کیوں نہیں ،،
آپ سے پوچھ رہا ہوں میں ،،
یہ شخص میری بیوی کا باپ کیسے ہو سکتا ہے ،،،
یہ نہیی ہو سکتا ہے ،، بولیں ،،
وہ مسز زارا کے سامنے کھڑا چلا رہا تھا ،،
جبکہ یہ بات وہاں موجود سب لوگوں کے سر پہ پہاڑ کی طرح گری تھی ،،
سکندر صاحب بھی شاک سے کبھی ارتضیٰ آفندی کو دیکھتے تو کبھی مسز زارا کو ،،
زرین بھی یہ بات سن چکی تھی ،،
اس کی نظر ارتضیٰ آفندی پہ گئی جو کہ اسی کو دیکھ رہے تھے ،، جبکہ مسز نورین آفندی وہ رپورٹس پکڑے اب پڑھ رہی تھیں ،،،
یہ انکشاف تھا یا کیا ،،
ارتضیٰ آفندی یک دم اٹھے اور زرین کو گلے لگاتے زارو قطار رونے لگے ،، زریں سہمی سی ان کے گلے لگی ہوئی تھی ،،
میری بیٹی ،،،،
میری گڑیا ،،،
مریم مجھے ہماری بیٹی مل گئی۔ ،
ناجانے یہ خون کی کشش تھی یا وہ احساس تحفظ تھا جس کی کمی اس نے سارا بچپن ،، جوانی میں محسوس کی تھی۔
ان کے گلے لگی اس کی آنکھوں سے پتا نہیں کیسے آنسو گرنے لگے ،،
آریان ایک نظر ان دونوں کو دیکھتا ان کی طرف جلدی سے آتا
زرین کو ارتضیٰ آفندی سے الگ کر چکا تھا ،،
یہ رپورٹس فیک ہیں ،،
سنا آپ نے ،،
میری بیوی کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہے ،،
اور تم کیوں رو رہی ہو ،، انہوں نے تمہیں رولایا ہے ،،
تمہیں پتا ہے نا کہ تمہارے ماں باپ مر چکے ہیں ،، تمہارا کوئی نہیں ہے سوائے میرے ,,،
اس کی حالت اس وقت کسی ایسے بچے کی تھی جسے اپنی پسندیدہ چیز کے چھن جانے کا خوف ہونے لگا تھا ،،
زارا ،،، کیا ہے یہ سب کچھ ،،
کیا یہ سچ ہے ،،
سکندر صاحب اس کو سمجھ نہیں پا رہے تھے ،، حالت تو مسز نورین کی بھی خراب تھی ،،
ہاں ،، سچ ہے ،،
پھر وہ ساری بات بتاتی گئیں ,
ارتضیٰ آفندی مسلسل روتے ہوئے زرین کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ،، جبکہ آریان اس کا دوسرا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا ,,
اندر چل کے بات کرتے ہیں ،،،
یہ سب کیا تھا ,،، مسز نورین آفندی پریشان تھیں ،، کیا یہ وہی بچی تھی جسے انہوں نے گود میں کھلایا تھا ،،
تو ثابت ہوا کہ مریم تم آج بھی جیت گئی ہو۔ ،،
تمہیں اگر ارتضیٰ کو میرا ہونے ہی نہیں دینا تھا ،، تو اسے مجھے دیا ہی کیوں ،،
وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ چکے تھے مسز زارا زرین کے ساتھ بیٹھیں تھیں۔ ،،
جبکہ دوسری طرف سکندر صاحب آریان کو لان میں روکے کھڑے تھے ،،
یہ جو بھی ہوا ،، یہ حقیقت ہے جس سے نظریں چرائی نہیں جا سکتیں ،،
وہ بچی ساری زندگی یتیموں جیسی یا اس سے بھی حالات میں رہی ہے ،،، اب اگر اسے اس کا باپ ملا ہے ،، تو تم بیچ میں نا آنا ،، اسے وقت دو ،، وہ اگر تم سے محبت کرتی ہے تو تمہارے پاس ہی رہے گی ،،،۔
لیکن ڈیڈ ،،،
وہ کچھ کہنے جا رہا تھا ،،
پاگل مت بنو ،، اس بچی سے اس کا حق مت چھینو ،،
اور ویسے بھی ارتضی اچھا آدمی ہے ،، اور اب تو تمہاری ماں کے سارے اعتراض دور ہو جائیں گے ،،
🥀🥀🥀
دیکھو زرین ,،،
میں تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی ،، لیکن پھر بھی تمہیں تکلیف مل گئی ،، تم پہلی دفعہ یہاں آئی ہو۔ ،، اوریہ سب ہو گیا ،،
لیکن شاید یہ سب اسی طرح ہونا تھا ،،،
میں نے تمہاری مام کی تصویر سے اندازہ کیا کہ تمہارا ٹیسٹ کروانا چاہئیے ،،، بس اسی لیے ،،
ارتضیٰ آفندی اپنی جگہ سے اٹھتے زرین کے پاس بیٹھ گیے تھے ،،
میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا ,
میرے دل نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ تم اس دنیا میں نہیں ہو ،،
یہ دیکھو اپنی ماما کہ تصویر ،،
وہ اسے مریم کی اور اپنی تصویر دکھا رہے تھے ،،
سامنے سے آتا آریان یہ منظر دیکھ کر دروازے میں ہی رک گیا تھا ،،، وہ اپنے باپ کے پاس بیٹھی تھی اور وہ کتنی محبت سے اس کے بالوں میں ہاتھ چلا رہے تھے ،،
کیا اب وہ اسے چھوڑ دے گی ،،،
اسے بے ساختہ تین دن پہلے کی وہ رات اور صبح یاد آئی
🌸🌼🌸🌼
مونا کو ڈاکٹر افضل اور کامران کی حفاظت میں دینے کے اگلے دن ،،
سورج کی روشنی کمرے ٹی وی لاونج میں آرہی تھی ،،
ٹی وی لاونج جگہ جگہ روئی اور چیزوں سے بکھرا بکھرا لگ رہا تھا ،،
بکھرے بکھرے تو وہ دونوں بھی تھے جو اس وقت کاؤچ میں نےایک دوسرے کی بانہوں میں سو رہے تھے ،،
رات ناجانے کس لمحے وہ سوئے تھے ،
زرین شاید روشنی کی وجہ سے ڈسٹرب ہوتی اٹھ گئی تھی ،،
اس نے بیٹھنے کی کوشش کی لیکن کچھ تھا جو اسے روکے ہوئے تھا ،،
✨✨✨
چہرہ اٹھائے وہ اس کو دیکھنے لگی ،،، جس کے ماتھے پہ بال بکھرے تھے ،، آنکھیں میچے ،، ، مغرور کھڑی ناک ،، اور وہ گال جن پہ دو گہرے گڑھے پڑھتے تھے ،، جنہیں کل رات ہی وہ ٹھیک سے دریافت کر سکی تھی ،،،مہرون سے ہونٹ تھوڑے سے زخمی لگ رہے تھے
،، شاید کل رات وہ زیادہ جذباتی ہو گئی تھی ،،
وہ اپنی انگلی سے اس کے نقوش کو محسوس کررہی تھی ،،،
اس کی نظر اس کے ہونٹوں سے ہوتے ہوئے اس کی گردن پہ گئی ، جہاں ایک لاکٹ تھا ،، اور گردن سے ہوتے ہوئے اس کی نظر اس کے سینے پہ گئی جہاں ہلکے ہلکے بھورے بال تھے ،،،
😍😍😍
وہ ساحر تھا ،، اسے اپنے سحر میں جکڑ لیتا تھا ،،،
جتنا وہ اسے ظالم اور بے حس سمجھتی تھی اتنا ہی وہ اندر سے پیارا انسان نکلا تھا ،،
وہ بے قابو ہوتی اس کے ماتھے پہ اپنے لبوں کی مہر لگانے کے
لیے جھکی تھی کہ اس نے آنکھیں کھول دیں ،،، اس کے ہونٹوں کا پاؤٹ بنا ہوا تھا ،،
کیوں ،، بیوی اتنی بے شرمی ،،،
سوئے ہوئے شوہر کو بھی معاف نہیں کر رہی ہو ،،
کیا میں سوتے ہوئے اچھا لگتا ہوں ،، یا پھر تم میرے سوئے ہونے کا فائدہ اٹھا رہی تھی ،، ہاں ،،
وہ مصنوعی ایکٹنگ کرتا اپنے سینے پہ دونوں ہاتھوں کو لپیٹ چکا تھا ،،،
💕💕💕
نہیں وہ میں ،،، آپ کے سر پہ کچھ لگا تھا ،، وہ صاف کرنے لگی تھی ،،
وہ بے حد شرمندہ ہو گئی تھی ،، رات بھر اس کی بانہوں میں گزار کر اب بے انتہا شرم آرہی تھی ،،
وہ اس سے دور ہونے کی کوشش میں تھی لیکن اگلے ہی لمحے وہ اسے نیچے کرتا اس کے اوپر حاوی ہو چکا تھا ،،
اس کے ہاتھوں کو سر کے اوپر لاک کرتا اس کے لبوں کو اپنی دسترس میں لے چکا تھا ،،،
آ ،، آریان ،، مجھے ،،، وا ،،، واش روم ،، جانا ہے ،،
شرم کے مارے وہ ڈرتے ڈرتے کہہ رہی تھی ،،
وہ اس سے دور ہوتا اس کی گردن پہ ایک زور دار کس کرتا اپنے لبوں کا رنگ لگا چکا تھا ،،
💋💋💋
جبکہ اس کی سانس وہیں تھم گئی تھی ،، وہ ساکت سی اپنی جگہ پہ کھڑی رہ گئی تھی ،،
جبکہ وہ اس کی حالت سے محفوظ ہوتا ،، دونوں بازوؤں سر کے نیچے رکھے مسکرا رہا تھا ،،
زرین کے جانے کے بعد وہ موبائل پکڑتا کامران کو کال کر چکا تھا ،،
وہ سیڑھیوں پہ کھڑا عثمان کو میسج کر رہا تھا،،
سامنے زرین نیلے لباس میں چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پہ برتن سیٹ کر رہی تھی ،،
رحمت آپا بھی آچکی تھیں ،،
بہت خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا ،،
♥️♥️♥️
اور پھر وہ ان
حسین پلوں کی قید سے آزاد ہوتا تو وہ حال میں آیا تھا ،،
وہ ارتضی آفندی کی بانہوں میں مسکرا رہی تھی ،،
اور اس سکندر صاحب جلد از جلد ریسیپشن کرنے کے بارے میں بات کر رہے تھے ،،
اسے سامنے کھڑا دیکھ کر زرین اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی تھی ،،
وہ خوش تھی بہت زیادہ خوش
اتنا خوش تو وہ آج تک نہیں ہوئی تھی ،،،
ارتضیٰ آفندی اسے زرین کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ،،
اور وہ انہیں منع کرنا چاہتا تھا ،، لیکن سکندر صاحب کی بات یاد آتے ہی وہ خاموش ہو گیا تھا ،،
وہ صحیح تھے اس نے کوئی اچھا سلوک تو نہیں
کیا تھا اس کے ساتھ ،، وہ اس کے ساتھ تھی کیونکہ اس کے پاس کہیں اور جانے کی جگہ نہیں تھی ،، جو کہ اب ہے تو
اب وہ فیصلہ کر سکتی تھی
اب اسے ہی خود سے اس کے پاس آنا ہوگا ،، وہ اسے نہیں روکے گا ،، اگر قسمت اسے خالی ہاتھ رکھے گی تو ،، وہ لڑے گا ہمیشہ کی طرح لیکن انتظار کرے گا ،،،
🌹🌹🌹
،،
0 Komentar