ہم نشین
از قلم عنائزہ بتول
موسٹ بولڈ اردو ناول
قسط نمبر 20
سردی کے احساس سے آنکھ کھلی تو رات کے حسین منظر اس کے دماغ میں نظر آنے لگے تھے ،،، اے سی کی وجہ سے کمرہ ٹھنڈا ہوا تھا اور اسےبھی سردی محسوس ہو رہی تھی ،
رات کیسے وہ دونوں پسینے میں تر تھے ،،
خیال آتے ہی اس کے گلابی لبوں پہ ایک دلکش مسکراہٹ آگئی تھی ،،،
کیسے وہ اس پہ اپنی شدتیں چھوڑ کے گیا تھا ،،
اس کا جسم درد کر رہا تھا ،،
مہرون نائیٹی کے اوپر والا گاؤن بیڈ کے پاس نیچے گرا تھا ،، اور شارٹ سی نائٹی میں وہ اس وقت تھی ،، جس سے اس کے پتلے سے نازک بازو ،، اور ٹانگیں نظر آرہی تھیں ،،
ننگے سپید پیر جن میں گلابی رنگت نظر آتی تھی ،، بیڈ سے نیچے اتارتی وہ گلاس ونڈو کے پاس گئی ،، اور ہاتھ سے پردے پیچھے کرتی وہ چونکی تھی ،، باہر کا منظر ایسا تھا گویا دوپہر ہو ،،
جلدی سے پیچھے مڑتی وہ موبائل اٹھاتی ٹائم دیکھنے لگی ،، 11 بج رہے تھے ،، وہ اتنی سوتی رہی تھی ،،، بابا نے ناشتہ پہ میرا انتظار کیا ہو گا ،، ساری رات تو وہ سو نہیں پائی تھی ،،
" بابا " یہ لفظ تھوڑا اجنبی لگتا تھا , لیکن اس کی زندگی کی حقیقت یہ ہی تھا ،،
وہ جلدی سے ڈریسنگ مرر کے سامنے آئی ،
اس کے سیاہ سلکی بال اس وقت اس طرح تھے جیسے کسی نے ان میں لوز کرل ڈالے ہوں ،،
لمبے بال کمر تک آتے تھے ،، وہ سینے پہ گرتے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرنے لگی ،،، تو اسکی آنکھوں کے ساتھ اس کا منہ بھی کھل گیا تھا ،،
اس کی گردن اور بیوٹی بون کے اردگرد کا سارا حصہ اس جنونی شخص کے دیے ہوئے نشانوں سے بھرا پڑا تھا ،،
او ،، اب میں کیسے انہیں چھپاؤں ،،
اف ،، آریان،،
وہ کپڑے لیتی واش روم کی طرف بڑی تھی ،،
✨✨✨
دوسری طرف ارتضیٰ آفندی اس وقت بھی سخت غصے میں تھے ،، صبح ہی وہ زارا سے بات کر چکے تھے ،، وہ تو سکندر صاحب سے بات کرنا چاہتے تھے ،، لیکن مسز زارا نے یہ کہا کہ سکندر ابھی تو ٹھیک ہوئے ہیں گولیاں لگنے کے بعد انہیں پریشان نہیں کرنا چاہیے ،،،
آریان کس طرح آخر میری ناک کے نیچے سے میرے گھر میں آ سکتا ہے ،،
مجھے اور گارڈ رکھنے کی ضرورت ہے اور کیمرے بھی اور لگواتا ہوں ،،
وہ خود کلامی کر رہے تھے ،،
ارتضیٰ کیا کر رہے ہیں آخر آپ ,,،،
وہ شوہر ہے آپ کی بیٹی کا ،، وہ آپ کے گھر آسکتا ہے اپنی بیوی سے ملنے ،،
ہاں اس کا طریقہ غلط ہے ،، وہ بھی اگر آپ اس طرح پابندیاں نا لگاتے تو وہ ایسا نا کرتا ،،
بیٹھ کر بات کر لیں اس سے طریقے سے ،،
مسز نورین آفندی ارتضیٰ صاحب کی حرکتیں دیکھ رہی تھیں ،، جب سے زرین ملی تھی تب سے وہ حد سے زیادہ ہی پوزیسو ہو رہے تھے ،،،
تم کچھ نہیں جانتی ہو ،، اس لیے تم چپ رہو ،،
زرین میری بیٹی ہے اور وہ آریان جیسے لڑکے کے بالکل قابل نہیں ہے ،، میری بیٹی کو رشتوں کی کوئی کمی ہے کیا ؟؟
ارتضیٰ آفندی مسز نورین کی بات سختی سے کاٹتے بولے تھے ،،،
ارتضیٰ آپ کیوں بھول جاتے ہیں آپ کی بیٹی شادی شدہ ہے ، اور وہ اب تک کی زندگی آپ کے بنا گزارتی آئی ہے ،، اور آپ سے پہلے اسے اس کا شوہر ملا ہے ،، اگر وہ کہتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ خوش ہے تو مطلب یہ ہی ہے کہ وہ خوش ہے ،،، آپ کیوں فضول میں،،،
مسز نورین سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے تھے ،
تم اپنی حد میں رہو نینا ،،
آریان کے بارے میں اچھے سے جانتا ہوں میں تب ہی تو کہہ رہا ہوں کہ وہ میری بیٹی کے قابل ہر گز نہیں ہے ،،
اور تم بھی اپنی حد میں رہو۔ ،، میرے اور میری بیٹی کے درمیان بالکل نا آؤ تو بہتر ہو گا ،،
وہ غصے سے بولے تھے ،، تبھی دروازے کے باہر ہلکا سا گلابی آنچل لہرایا تھا ،،
ہاں ویسے بھی میں ہوں ہی کون آپ کی ،،
آپ کا تو اس دنیا میں آپ کی بیٹی کے علاؤہ کوئی ہے نہیں ،،
کل مسز نورین نے ارتضیٰ کو زرین سے بات کرتے سن لیا تھا ،، ان کا دل تو اندر سے رو رہا تھا ،,, اور اب وہ شکوہ زبان پہ آگیا تھا ،،
مجھے زیادہ فضول باتیں نہیں سننی ہیں ،، یہاں میں پریشان ہوں اور تمہیں ہمیشہ ایک ہی بات پڑی رہتی ہے ،، اب ہم جوان نہیں ہیں جو میں تمہارے پلو سے لگ کر گھومو ،،
عمر ہو گئی ہے ،، اب یہ چونچلے نہیں ہوتے مجھ سے ،،
تمہاری یہ حسرت ہی ختم نہیں ہو رہی ،،،
ارتضیٰ غصے سے ہاتھ میں پکڑی کتاب کو میز پہ مارتے بولے تھے،،
ارتضیٰ مجھے بھی ایسی کوئی حسرت نہیں ہے ،، جوانی میں تھی تب بھی آپ نے یہ ہی سب کیا ، لیکن اب تو کم سے کم مجھے اپنی بیوی ہونے کی حثیت ہی دے دیں ،، مجھے دنیا کی نظر میں نہیں آپ کی نظر میں آپ کی بیٹی کی نظر میں وہ مقام چاہیئے ،،
مانا کہ میں آپ کو اولاد نہیں دے سکی ،،، لیکن آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آپ کی تو بیٹی ہے اس دنیا میں لیکن میرا تو آپ کے علاؤہ کوئی نہیں ہے اس دنیا میں ،،،
نورین آفندی بات کرتیں رو پڑی تھیں ،، وہ ارتضیٰ آفندی کے سامنے جا کھڑی ہوئیں تھیں ،،،
کیا کروں اور تمہارے لیے ، ہماری اولاد نہیں ہوئی ،، میرے دل میں اولاد کی کتنی چاہت تھی ،، لیکن میں نے بھی تو تمہاری جگہ کسی کو نہیں دی ،،
یہ خیال ہر مرد کی طرح میرے ذہن میں بھی آیا تھا کہ دوسری شادی کر لوں شاید اولاد ہو جائے ،، لیکن تمہارے لیے میں نے یہ نہیں کیا , صبر کیا ، چپ رہا ،، کبھی تمہیں بانجھ ہونے کا طعنہ تک نہیں دیا , ,,
اور کیا کروں ,,, ساری زندگی تمہارے ساتھ گزار دی ، تمہیں ہر مقام دیا ہر حثیت دی ، آج جب تم باہر نکلتی ہو تو یہ جو تمہیں عزت احترام ملتا ہے میری وجہ سے ہے ،،
جب بھی میں گھر آجاؤں تمہارے کمرے میں آؤں تم یہ ہی سب کر کے میرا موڈ آف کرتی ہو۔،،
تبھی وہ کوٹ پکڑ کر باہر جانے کے لیے اٹھ گئے ،، گلابی آنچل جلدی سے دروازے سے ہٹا تھا ،،
زریں کے گھر آنے کی وجہ سے ارتضیٰ اور نورین آفندی پھر سے ایک کمرے میں شفٹ ہو گئے تھے ،، ورنہ تو ایک عرصے سے وہ دونوں الگ الگ کمروں میں رہ رہے تھے ،،
،،بانجھ ،،، میں بانجھ ہوں۔ ,
نہیں ڈاکٹر نے تو کہا تھا کہ ہوئی مسئلہ نہیں ہے ،،
بانجھ کیسے ہو سکتی ہوں میں ،،،
نورین آفندی بیڈ کے پاس فرش پہ بیٹھیں پیٹ پہ ہاتھ دھرے خود کلامی کر رہی تھیں ،، کسی بھی عورت کے لیے اس سے بڑی کیا گالی ہو سکتی تھی ،، جو ساری زندگی کے بعد انہیں مل گئ تھی ،،
وہ جو ایک آرٹسٹ تھیں , ایک دنیا ان کی پینٹنگز کی منہ مانگی قیمت دیتی تھی ،، جن کے پاس پتا نہیں کتنے لوگ پینٹنگز کلاسز لیتے تھے ،،
ساری خود اعتمادی جیسے کہیں اڑ گئی تھی ،، ایک بے بس اور لاچار عورت کے علاوہ کچھ باقی نہیں تھا ،،
💔💔💔
وہ اس وقت کچن میں کھڑی کام کر رہی تھی ۔۔۔
ولید اور ائزے کے لیے ناشتہ لے کے ہاسپٹل جانا تھا اپ عائزہ اور ولی دونوں کی طبیعت کافی بہتر تھی ولید کو بھی ہوش ا چکا تھا عائزہ اور ولید ایک دوسرے کے ساتھ اکثر باتیں کرتے رہتے تھے ۔۔
ان کے درمیان ایک دوسرے کو دیکھ کر ہی معاملات ٹھیک ہو رہے تھے اہستہ اہستہ۔۔
تبھی پیچھے سے ا کر کسی نے اس کی کمر کے گرد اپنی باہوں کا گھیرا تنگ کر دیا تھا اور اس کے نم بالوں میں اپنا سر چھپائے وہ اس کو محسوس کر رہا تھا ۔۔
کیسی گزری رات ،،
کان کے بہت قریب سرگوشی کی گئی تھی ۔۔
شانزے اس وقت سیب کاٹ رہی تھی ۔۔۔ ایک سیب کا ٹکڑا وہ پیچھے مڑتی عثمان کے منہ میں ڈالنے لگی ۔۔
جب کہ عثمان سیب کے ٹکڑے کو اس کے منہ میں رکھتا اپنے لبوں کو اس کے لبوں سے ملاتا ادھا سیب کھا گیا ،،،
جب کہ شانزے کو ناجانے سیب چباتے اچانک کیا ہوا کہ وہ منہ پہ ہاتھ رکھتی واش روم کی طرف دوڑی ۔۔۔
عثمان بھی پریشان ہو گیا تھا وہ کل سے ہی اس طرح بار بار الٹیاں کر رہی تھی ۔۔
💕💕💕
کیا ہوا طبیعت ٹھیک تو ہے ،،،
وہ شانزے کو باہر اتا دیکھتا پوچھ رہا تھا ۔ ۔
میں ٹھیک ہوں ہو سکتا ہے کہ فوڈ پوائزننگ ہو گئی ہو ۔۔
نہیں اب میں تمہاری ایک بات نہیں سنوں گا ۔۔۔
اب ہم ہاسپٹل جا رہے ہیں نا تو وہاں پہ تمہارا ٹریٹمنٹ بھی ہم کروائیں گے ٹیسٹ کروا کے تو میڈیسن لینا فوڈ پوائزننگ نہیں ہونی چاہیے ۔۔
وہ تیار ہوتے ہاسپٹل کی طرف نکل چکے تھے۔ قسمت ان پہ شاید مہربان ہونے والی تھی ۔۔۔
🧡🧡🧡
ایک دفعہ پھر سے وہی گندا سا فلیٹ اور وہی گندے حالات ،،
فلیٹ میں باسی چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک بو شامل تھی وہ بو خون کی تھی ،،
وہ اس تین دن بعد اپنے فلیٹ پہ واپس ایا تھا اخری دفعہ وہ اس فلیٹ پہ تب ایا تھا جب وہ مونا کے ساتھ۔۔۔
کہاں گئی سالی بھاگ گئی ہیں شاید یا پھر پتہ نہیں کہاں دفع ہو گئی ہے۔۔۔۔
وہ شاید اس وقت شراب کے نشے میں تھا۔۔
لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ وہ بول رہا تھا۔۔۔
سب کو دیکھ لوں گا میں اریان کو بھی دیکھ لوں گا میں۔۔
صوفے پہ گرتا وہ ایک دفعہ پھر سے شراب کی بوتل کا منہ پر لگا چکا تھا ۔۔ تبھی اچانک دروازہ دار کی اواز سے کھلا تھا۔۔
ہاں پتہ ہوا دلاور اندر داخل ہوا تھا
گھٹیا انسان حرام خور کیا کیا ہے تو نے مولا کے ساتھ کیا تو نے اس کو مار دیا ہے کہاں ہے مونا جلدی بتا ورنہ میں تیری جان لے لوں گا دلاور چاقو حاشر کی گردن پہ رکھ کر
کھڑا تھا ۔۔۔
بتا حرام خور کدھر ہے وہ کدھر ہے مونا جلدی انسان بغیرت تم سے پوچھ رہا ہوں میں بتاؤ کدھر ہے مونا۔۔۔
میں تجھے اور اس حرامی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا تم دونوں نے مل کر میری مونا کے ساتھ کیا کیا ہے میں تجھے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مونا کے پیچھے سے ہٹ جاشر تجھے کچھ نہیں ملے گا تجھے تو میں زندہ مار دوں گا ۔۔
نہیں مارا میں نے اس کو میں اسے کیوں ماروں گا ،،،
وہ سالی رنڈی کی اولاد دس مردوں کے ساتھ بھی سولے پھر بھی نہیں مر سکتی ہے ،،،
دیکھ ،،، مجھے مار نے تجھے کچھ حاصل تو ویسے بھی نہیں ہونے والا ،، کیوںکہ وہ سالی مونا ،،،
او اچھا اچھا ،،
دلاور کے گھورنے پہ وہ دوبارہ بولنا شروع ہوا تھا ،،
وہ آریان کے چکر میں ہے ،، ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ ساری لڑکیوں کو اس کمینے میں دکھتا کیا ہے ،،،
وہ ایک جینی ہوتی تھی ،،، آریان کی گرل فرینڈ بننے کے لیے مرے جا رہی تھی ,,
اور پھر آریان کے ساتھ دو چار راتیں گزار کے ،، اس سے شادی کرنے کے لئے مرے جا رہی تھی ،،، اور سالا حرامی آریان نے اسے دوبارہ تھوکا بھی نہیں ،،
منی لانڈرنگ کرتی پکڑی گئی ،، اور آج جیل میں سڑ رہی ہے ،،،
دلاور موٹی عقل کا مالک تھا ،، حاشر کی بات میں ہی الجھ کر رہ گیا تھا ،، جتنا وہ غصے میں آیا تھا کہ حاشر کو مار ہی ڈالے گا ،،، اب الجھ کر اس کی بکواس کا مطلب جاننے کی کوشش کر رہا تھا ,,
اس لیے میرا اور تمہارا دشمن ایک ہے ،،، آریان خانزادہ ،،،،
میرے باپ کو اس نے اندر بند رکھا ہے ،،
میری زندگی اس نے جہنم بنا دی ہے ،، میں اپنی کمپنی تک نہیں جا سکتا ہوں ،،
پولیس جگہ جگہ میرے لیے چھاپے مارتی پھر رہی ہے۔ ،،
اوپر سے تیری اس معصوم مونا تجھ جیسے گدھے کو شراب کے نشے میں اندھا کر کے میرے خلاف پتا نہیں تجھ سے کیا کچھ اگلوایا یے ،،،
تو جس کو بچانے کے لیے مر رہا ہے نا وہ پہلے ہی تیری قبر کھود کے بیٹھی ہے ،،،۔ جس دن تو پولیس کے ہاتھ لگا تیرا کام ختم ،،
کیا مطلب ہے اس سب بکواس کا ،، میں تجھ جیسے کمینے کی باتوں میں آؤں گا کیا ،، اب تو تیری اپنی حالت فقیروں جیسی ہے ،، پولیس نے تیرے باپ کی ساری کمپنیاں سیل کروا دی ہیں ،، دو نمبر مال کی وجہ سے ،،،
دلاور کونسا ناک سے کھاتا تھا ،، وہ ایک منت میں حاشر کو اس کی اوقات دکھا گیا تھا ،، جس پہ حاشر برا سامنہ بناتا شراب کے گھونٹ مزید اپنے اندر اتارنے لگا ،،،
۔دیکھ ،، میری بکواس کا مطلب یہ ہے کہ ،، تو میرا ساتھ۔دے آریان کو ختم کرنے میں اور اس لڑکی کو حاصل کرنے میں ،،
تیرا ساتھ بدلے میں دونگا اگر اب بھی تجھے مونا ہی چاہیے تو ،،
حاشر ایک کے بعد تاش کے پتوں کی بازی لگا رہا تھا ،،
پہلے تو تجھے صرف صرف آریان کے باپ کو مارنا تھا اور اب اسے بھی ،،،
دلاور حیران بالکل نہیں تھا ,، حاشر کے اندر کی کمیننگی کو وہ پہلے سے جانتا تھا ،،,
ہاں اسے بھی ،،، اس سالے نے مجھے چھپ چھپ کر رہنے پر مجبور کر دیا ہے ،، تم میری مدد کرو آریان اور اس لڑکی کے بارے میں مجھے سب بتاؤ ،،، کہاں رہتے ہیں ،، کیا کرتے ہیں ,، سب کچھ
،حاشر خود تو زرین کا پتا لگا نہیں سکتا تھا کیونکہ پولیس جگہ جگہ اسے پکڑنے کے لئے تیار بیٹھی تھی ،،
جس جگہ تم زرین کو دھونڈ رہے ہو نا وہ وہاں نہیں ملے گی
کیونکہ وہ لڑکی اب کوئی عام لڑکی نہیں رہی ،،
وہ سالی ڈی پی او ارتضیٰ کی بیٹی نکلی ہے ،، وہی ڈی پی او جو بہت سخت ہے ،، بڑی مار پرواتا ہے دو سال پہلے جیل میں گیا تھا میں آج تک وہ مار یاد ہے ،،
اس لئے تیرے لیے بہتر اس لڑکی کو چھوڑ کر بس آریان پہ فوکس کر ،، وہ لڑکی ہاتھ نہیں ،،،،
کیا مطلب ہے ،، وہ لڑکی اس کی بیٹی ہے ،، اصل میں ،،
حاشر دلاور کی بات کا کاٹتا بولا تھا ،،
ہاں اور تمہیں پتا ہے ڈی پی او کا گھر کدھر ہے سیکٹر 5 میں رہتا ہے جہاں کی سکیورٹی۔۔۔
دلاور کیا کہہ رہا تھا وہ نہیں سن رہا تھا اس کا دماغ تیزی سے حساب کتاب کر رہا تھا ،، اس کا سارا نشہ ارتضیٰ آفندی کا نام۔سنتے ہی اتر گیا تھا ،،
وہ تھا ہی ایسا مجرموں کے ارد کیسے قانون کا شکنجہ تنگ کرنا یہ بات کوئی ارتضیٰ آفندی سے پوچھتا ،،
اب وہ دلاور سے تیز تیز کچھ کہہ رہا تھا ،، وہ۔ دونوں ہی اس بار کچھ الگ کرنے جا رہے تھے ، کیا معلوم وہ کامیاب ہونے والے تھا ،، برباد
🍂🍂🍂🍂
گلابی شارٹ شرٹ کے ساتھ بلیک پلازو پہنے ،، اور گلابی ڈوپٹہ کندھوں پر اچھے سے جمائے ،، بالوں کو چھوٹے سے کیچر سے پِن کیا گیا تھا ،، کھلے سیاہ بال اس کی کمر کو ڈھانپے ہوئے تھے ،، کچھ بال آگے کندھوں پہ بھی گر رہے تھے ،،
پتلی کمر گھنے سیاہ بالوں میں چھپ سی گئی تھی ،
وہ اس وقت کچن میں موجود تھی ،، اردادہ ناشتہ بنانے کا تھا ،، فرج سے انڈے اور بریڈ نکالتی وہ نیچے جھکی تھی ،،
کندھوں سے ڈوپٹہ سرک گیا تھا , وہ جلدی سے شیلف پہ چیزیں رکھتی اپنے ہاتھ فارغ کرتی ڈوپٹہ کو سیٹ کرنے لگی تھی ،،
تبھی مسز نورین آفندی کچن میں داخل ہوئیں تھیں ،، ان کی آنکھیں رونے کی چغلی کھا رہی تھیں ،، ایک نظر اس پہ ڈالتیں وہ چائے کے لیے پانی چڑھا چکی تھیں ،،
زرین کو یاد تھا جب وہ ارتضیٰ کے ساتھ گھر آئی تھی تو نورین آفندی زیادہ اسے بلاتی نہیں تھیں ،، اسے کمرہ دکھانا ضرورت کی چیزیں پوچھنا ،،
غرضکہ وہ صرف اس سے ضرورتاً ہی بات کرتیں تھی ،، وہ انہیں ابھی تک آنٹی بھی نہیں کہہ سکی تھی جو اسے ارتضیٰ نے کہنے کو کہا تھا ،،
لیکن آج صبح کی وہ باتیں سننے کے بعد وہ کچھ نورین آفندی کو سمجھ گئی تھی ،، اسے ماں باپ کا پیار نہیں ملا تھا اس میں کسی کی غلطی نہیں تھی ،، اس کی اپنی قسمت تھی یہاں تو سب ایک درد اندر چھپائے تھے ،،
وہ صبح کی باتیں سننے کے بعد ایک فیصلہ کر چکی تھی ،،
وہ نورین آفندی کی پشت کو دیکھتی اپنے اندر ہمت جمع کر رہی تھی ،،،
وہ دودھ لینے کے لیے پیچھے پلٹنے ہی لگیں تھیں کہ زرین نے ان کے آگے دودھ کا جگ کر دیا ،، نورین آفندی کی نظر جگ سے ہوتی اس کے ہاتھوں سے کلائیوں تک گئی ،،
سفید شفاف نرم ہاتھ ،، جن پہ ایک سرخ آنسو جیسی انگوٹھی تھی اور سنہری سا بریسلیٹ جو اس کی گوری کلائی پہ بے حد جچ رہا تھا ،، سفید گلابی سا چہرہ ،، بڑی بڑی آنکھیں ،، باریک ناک ،، گداز ہونٹ ، بیضوی چہرہ ،، اور چہرے پہ معصومیت کی الگ ہی کشش تھی ،،
حسن میں تو مریم تمہاری بیٹی تم سے دس گناہ زیادہ حسین ہے ،، ہوتی بھی کیوں نا ارتضیٰ اور تمہاری محبت کی نشانی ہے ، تم دونوں سے حسن چرایا ہے ،،
وہ مسکرا کر اس کے ہاتھ سے دودھ لیتیں , اسے شکریہ کہتیں ایک نظر اس کے سراپہ پہ بغور ڈالتیں اپنا کام کرنے لگیں ،،
مام ،، کیا میں آپ کو چائے بنا دوں ،،
نورین آفندی کے ہاتھ چینی کا چمچ پکڑے ہی ساکت ہو گئے تھے ،، ان کی سانس وہیں رک گئی تھی ،، اس کی آواز نے ان کے جسم کے سارے بال تک کھڑے کر دیے تھے ،،،
مجھے نہیں پتا کہ ماں کو کیا کہتے ہیں ،، یا ماں کو کس طرح بلانا چاہیے جس لفظ میں زیادہ تاثیر ہو ،، لیکن میں نے پچھلے کچھ مہینے ایک ایسے شخص کے ساتھ گزارے ہیں جو یہ ہی لفظ استعمال کرتا ہے ،، ۔
کیا سب امیر ہوگ ایسے کہتے ہیں ،، مجھے زیادہ نہیں پتا لیکن میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ میری بھی ایک ماں ہو ،، میں بچپن سے اب تک یہ ہی سوچتی ہوں کہ میری بھی ایک ماں ہو ، بابا سے زیادہ مجھے ماں کی ضرورت تھی ،،
کیا آپ میری ماں بنیں گی ،،
وہ ان کے نزدیک آتی ان کی پشت کی طرف دیکھتی کہہ رہی تھی ،،
اور نورین آفندی کا چہرہ آنسوؤں سے بھیک چکا تھا ،،،
چائے کا پانی جلتا کم ہو رہا تھا ،،۔ پتی اپنا رنگ نکال چکی تھی ،، دودھ کا جگ پاس پڑا تھا , لیکن ،
ماں ،، مام ،، یہ الفاظ کے لیے ساری زندگی ترس گئیں تھیں،
اور اب یہ لفظ سننے کو ملے بھی تھے تو مریم کی بیٹی کے منہ سے ،،،
مریم تم زندگی کے ہر قدم پہ جیت گئی ہو مجھ سے ،،
آنکھیں زور سے میچے وہ سوچ رہی تھیں ،، زرین ان کی پشت پہ کھڑی ان کی طرف دیکھ رہی تھی ،،، وہ جانتی تھیں وہ لڑکی ان کی طرف آس سے دیکھ رہی ہے ،،
ارتضیٰ اور مریم کی بیٹی ،،۔ ارتضیٰ اور مریم نے ان سے زندگی کی ساری خوشیاں چھینیں تھیں ،، لیکن اس میں اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں تھا ،، وہ تو معصوم تھی ،،
مریم نے تو اسے پیدا کرتے ہی ان کی گود میں ڈال دیا تھا ،، صرف مریم نے اسے اپنا دودھ ہی پلایا تھا ،، اور ارتضیٰ نے اسے صرف ایک نام دیا تھا ،،،
وہ پیچھے پلٹیں اور اسے اپنے گلے لگا گئیں۔ ،،
آج اگر وہ اس لڑکی کو ٹھکرا دیتیں تو کیا فائدہ ہوتا اتنے سال کے صبر کا ،، وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو اللہ کے دینے پہ شکر کرتے تھے ،،
وہ اسے گلے لگاتیں اسے کے ماتھے پہ , بالوں میں پیار کر رہی تھیں ،، انہیں وہ ننھی سی جان یاد آگئی ،، جس نے دنیا میں آتے ہی آنکھ ان کی گود میں کھولی تھی ،، وہ پہلی انسان تھیں جنہیں اس نے دیکھا تھا ،،
زرین ان کے گلے لگی تھی ،، ان کی خوشبو ،، ایک سکون سا تھا ،، اسے نہیں پتا تھا ماں کی گود کیسی ہوتی ہے ،، وہ احساس کیس ۔ہوتا ہے ،، لیکن جیسا وہ اس وقت محسوس کر رہی تھی ایسا ہی ہوتا ہوگا ،،
❤️❤️❤️
وہ دونوں چائے پیتے باتیں کر رہے تھے ،، ارتضیٰ آفندی گھر پہ نہیں تھے ،،
نورین آفندی اسے اس کے بچپن کی باتیں بتا رہی تھیں , اسے اس کی چھوٹے ہوتے کی تصویریں دکھا رہی تھیں ،،
پہلی دفعہ وہ کھل کے باتیں کر رہی تھی ،، آہستہ آہستہ وہ زندگی کو جی رہی تھی ،، آریان کی محبت ،، اور اب اپنا گھر ،، اپنے بابا ،، اور اب ماں ،،
اس نے اپنا گھر مکمل کر لیا تھا ،، قسمت نے اسے ساری چیزوں سے دور رکھا تھا ، لیکن اس نے آگے بھر کر سب اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لیا تھا ،،
وہ خوش تھی بہت خوش۔ , اب اسے صرف ایک کام کرنا تھا ،، ارتضیٰ آفندی اور نورین کے تعلقات اچھے کرنے تھے,، اس لیے وہ آریان سے بات کرے گی اسے کچھ دن یہیں رہنا تھا ،،
اسے اپنے گھر کو گھر بنانا تھا ،،،
وہ جو مسکراتی چائے کے سپ لیتی سوچ رہی تھی ،، اچانک سے منہ پہ ہاتھ رکھتی واش روم کی طرف دوڑی تھی ،،
پیچھے مسز نورین ارے ارے کرتیں رہ گئی تھیں۔ ،،
کیا ہوا ،،
وہ جیسے ہی واش روم سے باہر آئی تو نورین آفندی اس سے پوچھنے لگیں ،،
کچھ نہیں مام ،، بس یونہی مجھے الٹی ہو گئی تھی ،،
شاید میں نے رات کو زیادہ کھانا کھا لیا تھا ،،۔
وہ خود بھی پریشان تھی ،، صبح سے ہی اس کا دل گھبرا رہا تھا ،، ہلکے ہلکے چکر سے۔، ، سر گھوم رہا تھا ،، پتا نہیں کیوں ،،
وہ ابھی بھی بالکل ٹھیک محسوس نہیں کر رہی تھی ،،
چلو اچھا ہے اگر یہ تمہیں کھانا کھانے کی وجہ سے الٹی ہوئی ہے تو ،،
ورنہ اگر تمہارے شوہر کے پیار کے نشان تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں ،،،
نورین آفندی کی بات سنتے ہی اس کا زرد ہوتا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ،،
اس کے کندھے سے دوپٹا ہٹا ہوا تھا ،، اس کی گردن اور سینے پہ آریان کے لبوں کے نشان اس حسین رات کی چغلی کھا رہے تھے ،،
دیکھو زرین ،،
ایک عورت چاہے وہ جس عمر میں ہو ،، جتنی بھی حسین ہو ، ، جب اس پہ ایک مرد کی چھاپ لگ جاتی ہے نا تو اس کے بعد وہ عورت اس مرد کی پہچان سے پہچانی جاتی ہے ، ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ کبھی اس مرد کے ساتھ تھی ،،
اس لیے کوئی بھی فیصلہ کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ،، کیونکہ کوئی بھی تم سے بہتر یہ نہیں جان سکتا کہ تم کتنی خوش ہو ،، تم کتنی خوش ہو ، اور کس کے ساتھ خوش ہو یہ تمہارا دل جانتا ہے صرف ،،
نا میں اور نا تمہارے بابا ,,
نورین آفندی اسے دھکے چھپے لفظوں میں سمجھا رہی تھیں ،، اب جب وہ ان کی بیٹی بن گئی تھی ،،، اس نے ایک دفعہ بھی مریم کا ذکر نہیں کیا تھا تو ،، وہ مریم کی نہیں ان کی بیٹی تھی ،،
آخر کار اتنے سال بعد آج میں جیت گئی ہوں مریم تم سے ،،
تمہاری بیٹی تمہیں نہیں جانتی ،، اس کی ماں میں ہوں ،،،
اور اب ارتضیٰ کو وہ مقام مجھے دینا ہوگا جس مقام پہ اتنے سال سے تم بیٹھی ہو ،، تمہاری جگہ اب ہماری زندگیوں سے ختم ہو جائے گی ،، آج مجھے لگ رہا ہے کہ تم واقعی میں مر گئی ہو ,،،
ایک مطمعن مسکراہٹ ان کے لبوں کو چھو گئی تھی ،،۔ زرین اپنے کمرے میں آرام کرنے جا چکی تھی ،،اور وہ دوبارہ کچن میں آتیں اس کے لیے ناشتہ بنا رہی تھیں،،
اب وہ ان کی بیٹی تھی ،، یہ گھر ،، ارتضیٰ آفندی ،۔، اور ارتضیٰ آفندی کی بیٹی ،، سب کچھ ان کا تھا ،،
زندگی نے اتنے سال بعد انہیں وہ سب دیا تھا ، جس کی وہ حسرت دل میں دبائے ہوئے تھیں ،،
💕💕💕
خان ٹیکسٹائل کی شاندار بلڈنگ ،، اور پارکنگ لاٹ میں کھڑی شاندار گاڑیاں اس وقت باہر سے امپورٹ کرائی گئیں تھیں ، جو کہ خان شو روم کی زینت بننے والی تھیں ،،
وہ اس وقت آفس میں بیٹھا تھا ,,
سفید شرٹ کے اوپر کے دو بٹن کھلے تھے ،، جن پہ غور کرنے پہ پتا چلتا تھا کہ وہ ٹوٹے ہوئے ہیں ،،
آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ،، اس کی آنکھیں تھوڑی سے سوجھی ہوئی تھیں ،، آج شیو بھی نہیں کی گئی تھی ،،
بال بھی آج ماتھے پہ بکھرے تھے ،، غالباً آج بالوں کو بنایا بھی نہیں گیا تھا ،،
سامنے کھڑی سیکٹری جو کہ فائل سائن کروانے سی ای او کے آفس میں کھڑی تھی ,, سامنے بیٹھے اپنے بوس کو دیکھ رہی تھی ،، ان کا باس بہت ہینڈسم تھا , اسے یہاں کام کرتے چار سال ہو گئے تھے ،،
چار سال پہلے جب سکندر صاحب نے اپنے بیٹے کو آفس میں انٹروڈیوز کر وایا تھا تب سے اب وہ ہمیشہ بہت تیار ہو کر آتا تھا ،، لیکن آج ،،
اس نے سنا تھا کہ ان کا نیا باس ایک پلے بوائے ہے ،، لیکن آج تک اس نے آفس میں کسی فی میل کے ساتھ زیادہ بات تک نہیں کی تھی ،، یا پھر آفس میں کوئی اس کی ٹائپ کی نہیں تھی ،،،
بہت سی افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ وہ شادی کر چکا ہے کسی لڑکی کو اغواہ کر کے ،،
نامعلوم اس بات میں کتنی سچائی تھی ،،
مس عروج ،، اگر آپ نے اچھی طرح سے میرا جائزہ لے لیا ہے تو یہ فائل اٹھا لیں ،، اور اس کا دوبارہ جائزہ لیں بے حد غلطیاں ہیں اس میں ،، یہاں آپ کو اس چیز کے پیسے ملتے ہیں نا کہ باس اور آفس کے جائزہ لینے کے ،،
ناؤ گیٹ لاسٹ ،،
وہ جو اسے گھورنے میں مصروف تھی ،، اچانک سے اسکی سرد آواز پہ چونکی ،،
اور یس سر کہتی فائل اٹھا کر باہر کی جانب دور لگادی ,,
اس کے میز پہ " خان ٹیکسٹائل" کا لوگو پڑا تھا ،، ۔
اس کا سر شدید درد کر رہا تھا ،، ساری رات وہ سویا نہیں تھا۔
اس دشمن جان کی بانہوں میں سکون تھا ،،
لیکن اب اسے زرین پہ بھی بہت غصہ تھا ،، تھوڑی دیر پہلے اس کا میسج آیا تھا کہ وہ کچھ دن اپنے گھر رہنا چاہتی ہے ..
" اپنا گھر "
ہونہہ ،، اب وہ گھر اپنا گھر ہو گیا ،، اس کا سر شدید درد کر رہا تھا ، دو انگلیوں سے وہ سر دبا رہا تھا
صبح مام سے بحث کے نتیجے میں دو تھپڑ کھا چکا تھا ،،
آج وہ کسی صورت آفس نا آتا اگر شو روم کے لیے نئی گاڑیاں نا آنی ہوتیں تو ،، آج اسے ارتضیٰ آفندی سے صاف دو ٹوک بات کرنی تھی ،،
تبھی اس کے آفس کے باہر بہت شور سنائی دیا اور پھر کوئی شخص گرتا پڑتا اس کے آفس میں داخل ہوا ،، پیچھے ہی سیکٹری اور مینیجر تھا ,
میری بات سنو ،،
وہ شخص پتا نہیں کون تھا جو بار بار یہ ہی کہہ رہا تھا ،،
سر ،، سر ،، پتا نہیں یہ کون ہے کہتا ہے آپ سے بات کرنی ہے ،، ہم نے اسے بہت روکا ہے لیکن یہ نہیں رکا ،
تم لوگوں کو یہاں پر مکھیاں مارنے کے لیے تو نہیں رکھا ،، اگر تم لوگ یہ بھی نہیں پتا لگوا سکتے کہ اس آفس میں کون آرہا ہے ،، اور کون میرے کمرے تک پہنچ رہا ہے ،
اس لیے میں تم لوگوں کو اتنی تنخواہیں دیتا ہوں ،،
آریان سخت غصے میں کھڑا ہوتا ڈھاڑ رہا تھا , آج کا دن ہی خراب تھا ،،
سر ،، سر ،، یہ ، وہ ،، کہہ رہا ہے کہ ،،، یہ،،،
مینیجر بات کرتے اٹک رہا تھا وہ کیسے بتا دیتا کہ یہ شخص کہہ رہا ہے کہ وہ ان کے بوس کی بیوی کا کا شوہر ہے ،، اور اس کے ہاتھ میں نکاح نامہ بھی موجود ہے۔
وہ باس جس کا ابھی ان کو خود کو بھی نہیں پتہ کہ وہ شادی شدہ ہے بھی یا نہیں ۔۔
اب بک بھی دو کیا بکنے کے لیے تمہیں کسی اور چیز کی ضرورت ہے ۔۔۔ آریان مینجر کی اٹکنے پہ سخت برہم ہو رہا تھا
سر یہ کہہ رہا ہے کہ یہ اپ کی بیوی کا شوہر ہے ۔۔
ڈرتے ڈرتے اخر اس نے کہہ ہی دیا تھا اس کی بات سنتے ہی اریان کے چہرے پہ ایک الگ ہی غصہ اگیا تھا
کیا بکواس کر رہے ہو تمہیں اپنی جان پیاری ہے یا نہیں پیاری اس طرح سے بکواس کرو گے تو میں تمہیں ایک سیکنڈ میں قتل کر دوں گا ۔۔
اریان اس کی طرف دیکھ کے چلایا تھا اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا۔ انکھوں سے شعلے نکل رہے تھے ،،
تم سب باہر دفعہ ہو جاؤ ۔۔
اریان نے مینجر اور سیکرٹری کو باہر نکل جانے کا بولا تھا وہ اس شخص سے خود نپٹنا چاہتا تھا وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے یا کیا کر رہا ہے ایسے کسی بھی شخص کو جان سے مار دے گا ۔۔۔
ہاں بولو کیا بکواس کر رہے ہو تم کیا ہے تمہارے ہاتھ میں مجھے دکھاؤ ۔۔
اور پھر اس شخص کی باتیں سن کے اور وہ نکاح نامہ دیکھ کے اریان کا اپنا سر بھی گھوم گیا تھا ۔۔
نکاح نامے کے مطابق زرین اس شخص کی بیوی تھی اور وہ کسی شادی شدہ عورت کو اپنے نکاح میں لے کر بیٹھا تھا۔۔
اس طرح سے تو اس کا اور زرین کا نکاح تو بالکل غلط تھا۔۔
اس طرح کے بہت سے میں نے فالتو پیپر دیکھے ہیں ۔۔
اگر تم دوبارہ میرے افس میں نظر بھی ائے تو میں تمہاری ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتوں کو کھلا دوں گا۔۔
اس سے بہتر ہوگا یہاں سے دفع ہو جاؤ اور کبھی
مجھے اپنی دوبارہ شکل نہ دکھانا۔۔
اریان اس کو گریبان سے پکڑتا اسے دیوار میں دے کے مارا تھا اور گارڈ کو فون کرتا وہ اسے اپنے افس سے باہر نکلوا رہا تھا
لیکن اس کا اپنا دماغ گھوم چکا تھا وہ اپنا کوٹ پکڑتا اور نکاح نامہ کے کاغذات کو پکڑتا پارکنگ لاٹ کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔
اسے اب بھی اور اسی وقت زرین سے بات کرنی تھی اس کی زندگی کو برباد کر کے وہ کیسے سکون سے ہو سکتی ہے۔
اپ نہ جانے انے والا کون سا طوفان تھا۔۔
💕💕💕
وہ دونوں اس وقت بہت خوش تھے لیڈی ڈاکٹر سے رپورٹس کروا چکے تھے ایک ایک منتھ کی پریگننسی تھی اس کو
عثمان بہت خوش تھا خوش تو شان سے بھی بہت تھی اخر کار اس کی دعائیں رنگ لے ائی تھی اب وہ یہ خوشی کی خبر عائزہ کو بتانے جا رہی تھی ۔۔۔
عائزہ اور ولید دونوں ایک ساتھ بیٹھے تھے عائزہ فروٹ کاٹتی ۔۔ سیب کے ٹکڑے ولید کو کھلا رہی تھی
اور وہ مسکراتا ہوا اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
زندگی کے بہت سارے کالے بادل چھٹ گئے تھے اب ان کی زندگی میں خوشی تھی۔۔
💕💕💕
ایک دو دن میں ڈاکٹر ان کو ڈسچارج کرنے والے تھے ۔۔
ولید کی طبیعت بہت بہتر تھی اور اب وہ آئزہ کے ساتھ رہنا چاہتا تھا ۔۔
آپی اپ اگئیں ۔۔ کیا کہا ڈاکٹر نے سب کچھ ٹھیک تو ہے نا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے
ولید بھی عثمان کی طرف دیکھ رہا تھا جبکہ عثمان کے چہرے پہ ایک انوکھی خوشی تھی۔۔۔
ولید میرے بھائی تیرے ٹھیک ہونے پہ ہم سب کی زندگیاں ٹھیک ہو گئی ہیں تیرا بھائی باپ بننے والا ہے ۔۔
ولید اور عثمان ایک دوسرے کے گلے لگ چکے تھے۔۔
جب بھی عثمان کی بات سنتی عائزہ بھی چیک مارتی مسکراتی شانزے کی گلے لگ گئی تھی وہ شانزے کو گول گول گھوما رہی تھی بہت خوش تھی وہ ۔۔۔
ارے ارے بس کرو کیا کر رہی ہو میری بیوی کے ساتھ کیا اس کو گھما کے دیوار میں مارنے والی ہو میری بیوی کا کچھ خیال کرو۔۔۔
اور تم لوگ بھی۔ اب ہاسپٹل سے اپ نے ڈھیرے اٹھا لو اب میں اور میری بیوی تم لوگوں کا مزید خیال نہیں رکھ سکتے۔۔
تم لوگ اپنے گھر میں جاؤ میری بیوی کو خود ارام کی ضرورت ہے اور اب عائزہ یہ تمہاری ڈیوٹی ہے کہ
تم میری بیوی کا خیال رکھو ۔۔
جی جی بھائی ضرور میں اپنی بہن کا خیال بہت زیادہ رکھوں گی
جتنا خیال اپی نے میرا خیال رکھا ہے میں اس سے بھی زیادہ خیال رکھوں گی اور جب تک ہمارا بی بی نہیں ا جاتا
میں تب تک ان کا خیال رکھوں گی اس لیے اپ کو
ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے اپ بات ایسا کریں کہ
اپنی جیب تھوڑی سی ڈیلی کریں ہمیں ایک اچھی سی ٹریٹ کھلائیں۔۔۔
توبہ توبہ کوئی سن لے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ تم یہاں پہ مریض ہو تم تو یہاں پہ ہم سب کو کھانے کے لیے بیٹھی ہوئی ہو۔۔۔۔
تھوڑا صبر کرو مر کیوں رہی ہو ۔۔
میں جاتا ہوں باہر ۔۔
کیا کھانا ہے مجھے بتا دو وہ تمہیں لا دیتا ہوں۔۔
اور پھر عائزہ اس کو اپنی فرمائشیں بتانے لگی
ولید اور شان سے عائزہ کی باتیں سن سن کر ہنس رہے تھے
اخر کار بہت لمبے عرصے بعد ان کی زندگیوں میں
اتنی زیادہ خوشیاں اگئی تھیں ۔۔۔
لیکن یہ خوشیاں کہیں اور سے روٹھ گئی تھیں
اریان اور ذرین کی زندگی ایک بار پھر سے بہت سی الجھنوں کا شکار ہونے والی تھی۔۔
💔💔💔
وہ اس کی طرف بڑھتا اس کے جسم پہ موجود کپڑوں کو آہستہ آہستہ سے اتار رہا تھا ،،
وہ بالکل چت لیتی تھی ،، اس کے چہرے پر کوئی احساس نہیں نظر آرہا تھا ،، وہ اس کی پہلی محبت تھا ،،، اور وہ اس کے برہنہ وجود کو چھو رہا تھا لیکن اس کے چہرے پہ کوئی بھی احساس موجود نہیں تھا ,،،
کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ،،
چھوٹا لیمپ چل رہا تھا جو اس کے جسم کے خدو خال کو نمایاں کر رہا تھا ،،
اس کے جسم پہ موجود زخموں کو دیکھنے اور ان پہ مرحم لگانے کے لیے ڈاکٹر افضل ہاتھ میں ٹارچ لیے ہوئے تھا ،،،
مونا اس وقت بنا کسی لباس کے تھی ،، اس کا سارا جسم داغدار تھا ،، اس کے سینے پہ دانتوں کے زخم تھے ،، تو اس کے پیٹ اور کولہوں پہ سیگریٹ سے جلنے کے نشان بنے تھے ،،
اس کی حالت اب پہلے سے بہتر تھی ،،۔ لیکن شروع دن سے ہی اس کے جسم پہ وہ ہی مرحم لگاتا تھا ،، اب تو اس کے زخم ٹھیک ہونے لگے تھے ،،
مونا ،،،
مجھ سے شادی کر لو ،،
وہ اس کے پیٹ کے نچلے حصے پہ کریم لگا رہا تھا۔،
اور وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھی ،،
جب اس نے اچانک سے آواز سنی تھی ،، اس کی آنکھیں کھل گئی تھیں۔ ،،
اس کے پورے جسم کو چھونے پہ بھی اس کے چہرے پہ کوئی احساس نہیں ابھرا تھا لیکن ،، افضل کی اس بات نے جسیے اسے جنجھوڑ دیا تھا ،،،
غصہ سے توہین کے احساس سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ،،
تم کیا سمجھتے ہو مجھے ،،
تم میرا اور میرے جسم کا مذاق اڑا رہے ہو ،،
مجھے یہ بتا رہے ہو کہ مجھے کتنے مردوں نے اس حال تک پہنچایا ہے ،، ہاں تم جیسے،،،
وہ جو غصے سے برہنہ وجود کے ساتھ بیٹھی چیخ رہی تھی ،،
اچانک اس کی زبان کو بریک لگ گئی تھی ،،
کیونکہ افضل اس کے لبوں کو قید کر چکا تھا ،،
وہ تو اسے اس حال میں دیکھ کر شرمندہ تھا ،،،
کہیں نا کہیں تو وہ بھی زمہ دار تھا اس کی حالت کا ،، وہ جو آج اس حال میں تھی اس کا زمہ دار وہ بھی تو تھا ،،
کتنے ہی پل گزر گئے تھے ،،، وہ جو مزاحمت کر رہی تھی ،، اب اس کی مزاحمت دم توڑ چکی تھی ،،۔
اچھا ہے جب بنا شادی کے سب حاصل ہو سکتا ہے تو شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے ،، اور اس کی زندگی میں تو ویسے بھی آنے والے سارے مرد ہی اسے شادی کا جھانسہ دے کر گئے تھے ،،۔
اب مزید اس دھوکے میں نہیں آنا تھا اسے ۔۔۔
کچھ لمحوں بعد وہ اس کے لبوں کو آزاد کرتا پیچھے ہٹا تھا ،،
جبکہ مونا اس کو اپنے اوپر کھینچ رہی تھی ،،
تمہیں میرے برہنہ وجود سے فائدہ لینا ہے لے لو ،، دیکھ تو تم سب چکے ہو اتنے دن سے ،،
میں کپڑے پہنوں یا نا پہنوں ایک ہی بات ہے تم تو ویسے بھی روز میرے کپڑے اتارتے ہی ہو ،، تو آج کر لو وہ سب جس کے لیے تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو ،،
وہ کیسا ذہر اگل رہی تھی ،،
تمہیں ایسا لگتا ہے کہ میں اتنے دن سے تمہارے جسم کو دیکھ رہا ہوں تو میرے ارمان جاگ گئے ہیں اور اس لیے میں شادی کا بہانہ کر رہا ہوں ،،،؟؟
تو پھر کیا ہے ،،۔
یا تم مجھے یہ کہنا چاہتے ہو کہ میرا جسم اب اس قابل بھی نہیں کہ کسی کے ارمان ہی جگا سکے ،،
مونا اس کی بات کے جواب میں کہہ رہی تھی ،، وہ دونوں بیڈ پہ آمنے سامنے بیٹھے تھے ،، مونا کا۔برہنہ وجود اس کے سامنے تھا ،،۔
میں بہت گھٹیا ہوں، ، میں مانتا ہوں ،،، میں نے سولہ سال کی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی ،، اسے اپنی جھوٹی محبت میں پھنسایا اور محبت کے نام پر اس کی عزت کی دھجیاں اڑا دیں ،،
لیکن تمہارے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا ،، کہ محبت کا ڈرامہ کرتے کرتے میں کب تم سے سچ میں محبت کرنے لگا اس بات کا ادراک مجھ پر بہت دیر سے ہوا ،،
میں نے تمہیں ڈھونڈا ،، لیکن تم مجھے جہاں اور جس حال میں ملیں ،، میں خود سے ہی نفرت کرنے لگا تھا ،،،
جب تم ولید کے ساتھ یہاں آئی میں یہ ساری بات تم سے تب بھی کرنا چاہتا تھا لیکن تم نے مجھے نہیں کرنے دی ،،
دیکھو میں تم سے ,,
بس کرو ،،،۔ یہ بکواس کرنا ،، جو چاہیے وہ بتاؤ ۔،،
ویسے تم مجھ سے شادی کر کے کیا لو گے ،، ؟؟
اتنے مردوں کی چھوڑی اور بھرتی ہوئی لڑکی سے تمہیں کیا چاہیے،،،
مونا اس کی بات کاٹتی بولی تھی ،،
یہ بات تمہیں کیوں نہیں سمجھ آرہی کے محبت کرتا ہوں تم سے ورنہ کون مرد ہے جو کسی ایسی عورت۔ سے شادی کر لے جو پتا نہیں کتنے مردوں کے ساتھ سو چکی ہو ،،
چاہے وہ پہلا مرد وہ خود ہی کیوں نا ہو،،
میری محبت پہ تب بھی تو تم نے یقین کر کیا تھا جب میں تمہارا جسم حاصل کرنے کے لیے سب کر رہا تھا ،،،
اب تو تمہارے پاس کھونے کو کچھ ہے بھی نہیں تو اب یقین کیوں نہیں کر رہی ہو ،،
کچھ لمحے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی ،، اب وہ سولہ سال کی بچی نہیں تھی ،،، جو مرد کی آنکھیں نا پڑ پاتی ،،، لیکن کہا جاتا ہے کہ عورت جس عمر میں بھی ہو مرد کی آنکھیں پڑنا مشکل ہوتا ہے۔ ، بڑی آسانی سے یہ مرد عورتوں کے نازک دل کے ساتھ کھیلتے ہیں ،،
وہ کچھ لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھنے کے بعد واپس لیٹ چکی تھی ،،،
مجھے درد ہو رہا ہے ،، اور تھوڑی سردی کا بھی احساس ہو رہا ہے ،،، آنکھیں بند کرتی وہ کہہ رہی تھی ،،،
وہ بہت نرمی سے اس کے جسم پہ دوائی لگاتا اب اسے کپڑے پہنا رہا تھا ،، آہستہ آہستہ وہ اس کے جسم کے خاص حصوں کو چھپاتا جا رہا تھا ،،
🔥✨🔥✨🔥✨
بابا یہ رہی اپ کی چائے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے پی کے بتائیں کیسے بنی ہے چائے اور یہ جو کباب ہیں نا یہ بھی میں نے بنائے ہیں مجھے ماما نے سکھائے تھے۔۔
لیکن بنائے میں نے خود ہیں۔۔
اب آپ جلدی سے ٹیسٹ کر کے مجھے بتائیں کہ
یہ کیسے ہیں
ارتضافندی زرین کے منہ سے نورین ان کے لیے ماما کا لفظ سن کر حیران ہو رہے تھے۔ ۔۔
جبکہ نورین افندی مسکرا رہی تھی اخر کار ان کو وہ سب کچھ مل گیا تھا جن کی وہ تمنا کرتی تھیں ۔۔۔
اپ ایسے حیران ہو کے کیوں دیکھ رہے ہیں
اپ میرے بابا ہیں اور اپ کی بیوی میری ماما ہی ہوئی نا
میں اور انہیں کیا کہوں گی اور ویسے بھی بابا میرا دل
چاہتا ہے کہ میرے پاس ایک میری ماں بھی ہو
بابا تو مجھے مل گئے ہیں لیکن مجھے میری ماں
میری چاہیے اس لیے میں اج سے انہیں اپنی ماما
کہوں گی اج سے میری ماما یہی ہیں۔۔۔
نورین آفندی پیار سے زرین کا ہاتھ پکڑے اپنے لبوں سے لگاتی اسے پیار کر رہی تھیں ۔۔
اچھا اگر اپ دونوں ماں بیٹی نے فیصلہ کر لیا ہے تو میں کون ہوتا ہوں کچھ کہنے والا ،،
جیسے تمہیں اچھا لگے ویسے ٹھیک ہے میری بیٹی کی
خوشی میں ہی میری خوشی ہے
ارتضافندی نے ہتھیار ڈال دیے تھے یہ تو انہوں نے
سوچا ہی نہیں تھا کہ ان کی بیٹی کو ماں کی بھی
ضرورت ہوگی
اور نورین سے زیادہ اچھی ماں اور کون ہو سکتی ہے
جب زرین نے اس دنیا میں اپنی انکھ کھولی تھی
تب بھی تو نورین نہیں اس کا خیال رکھا تھا
اور مریم کی بھی تو خواہش رہی تھی کہ ذرین کی ماں
نورین ہو تاکہ زرین کو ماں کی کمی محسوس نہ ہو ۔۔۔
وہ تینوں اخر کار ایک فیملی کی طرح مسکرا رہے تھے
نورین افندی زرین اور ارتضی کو چائے کپس میں ڈال کر
دے رہی تھیں وہ بالکل ماؤں کی طرح ذرین
کا خیال رکھ رہی تھی
اور ارتضی آفندی یہ سب کچھ دیکھ کر اندر سے پرسکون ہو رہے تھے
اخر کار ان کی بیٹی کو ایک محفوظ جگہ مل گئی تھی
ان کی بیٹی یا بالکل ٹھیک تھی بالکل محفوظ تھی
تبھی پورچ میں کار آ کے رکی تھی سامنے نظر آتی کار دیکھ کے سب جانتے تھے کہ اس کار میں کون ہے زرین کے
چہرے پہ ہوائیاں اڑ گئی تھیں ابھی کچھ دیر پہلے ہی
تو اس نے اریان کو میسج کیا تھا اور اب وہ میسج کا
جواب دینے کے لیے اس کے گھر آگیا تھا
وہ بھی اتنے غصے میں
وہ سامنے سے چلتا ہوا ا رہا تھا
اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا انکھوں سے شعلے نکل رہے تھے
اور ہاتھ میں ایک کاغذ پکڑا ہوا تھا
جو لا کر وہ زرین کے سامنے میز پر مارتا ہوا
رکھ چکا تھا۔
یہ کیا بدتمیزی ہے تمہاری ۔۔۔ تم میرے گھر میں اس طرح دندناتے ہوئے کیسے آ سکتے ہو اور میری بیٹی کے سامنے یہ
کیا کر رہے ہو میری بیٹی کو اس طرح گھورنا بند کرو ۔۔
ارتضی افندی اریان کو دیکھ کر غصے سے بولے تھے ۔۔ حیران تو مسز نورین بھی ہو گئی تھی یہ سب کیا ہو رہا تھا۔
اپ ابھی اس میں مت بولیے میں اس وقت اپنی بیوی سے پوچھ رہا ہوں اور مجھے میری بیوی سے بات کرنے دیں۔۔۔
اگر ہو سکے تو ہم دونوں کو اکیلا چھوڑ دیں
آریان ارتضی کی طرف دیکھتا بولا تھا ۔۔
چلیں اندر چلتے ہیں کچھ دیر بعد ا جائیں گے ۔۔
نورین افندی ارتضی کی بازو پکڑے انہیں کہہ رہی تھی ۔۔۔
ہرگز نہیں تمہیں جو بات کرنی ہے میرے سامنے کرو
اور میری بیٹی سے نہیں مجھ سے بات کرو تمہیں
جو بات کرنی ہے
زرین میں تم سے پوچھ رہا ہوں یہ کیا ہے۔ ۔۔
مجھے میری بات کا جواب چاہیے کیا ۔۔
یہ کاغذ جو اس میں لکھا ہے یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے
کیا مجھ سے شادی کرنے سے پہلے تم نے کسی اور
سے بھی شادی کی تھی میری بات کا جواب دو۔۔
اریان زرین کو بازو سے پکڑتا جھنجوڑتا بولا تھا
جبکہ زرین بے یقینی سے اریان کی طرف دیکھ رہی تھی
وہ کیسے اس پہ یہ الزام لگا سکتا تھا وہ جو اس کی محبت تھا
زخمی نظروں سے اریان کی طرف دیکھتی وہ کاغذ کھولتی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
اسے یہ کاغذ اچھی طریقے سے یاد تھا اسے یاد تھا اس کی خالہ کے جانے کے بعد وہ لوگ اس کا نکاح زبردستی کروانا چاہتے تھے یہی کاغذ تھا ۔۔۔
جہاں پر اس کے انکل نے اس سے زبردستی انگوٹھے کے نشان لگوائے تھے ۔۔
لیکن اس نے تو قبول ہے نہیں کہا تھا تو پھر یہ نکاح
کیسے ہو سکتا تھا۔ ۔۔
جواب دو مجھے یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے
یہ کاغذ اصلی ہے یا نقلی ہے اس کاغذ پہ جو نشان ہے
یہ تمہارے ہیں یا نہیں ہیں۔۔
زرین کی انکھوں سے انسو بہنے لگے تھے
اس کاغذ کا مطلب کیا تھا وہ سب سمجھ رہی تھی
اریان کو کھونے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی
اگر وہ سچ بولتی تو وہ آریام کو کھو دیتی اور
اگر وہ جھوٹ بولتی تو ۔۔۔
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ کیا کرتی اسے
کچھ بھی سمجھ نہیں ا رہا تھا۔۔
اس طرح بت بن کے کیوں کھڑی ہو میں تم سے
پوچھ رہا ہوں یہ کاغذ اصلی ہے یا نہیں ہے یا
پھر تمہاری خاموشی کا جواب ہاں ہے تو ۔۔۔
تم کیسے مجھے دھوکہ دے سکتی ہو اگر پہلے سے
ہی ایسا کچھ ہوا تھا تو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں
۔۔
تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا تاکہ میں ہر چیز کو مینج
کر سکتا
اریان اس پہ چلا رہا تھا اس کا بازو پکڑتا وہ اسے
جنھجوڑ۔ رہا تھا جبکہ اس کی انکھوں سے بے شمار
انسو بہہ رہے تھے۔۔۔
یہ سب کیا بکواس ہے۔ ۔۔
ارتضی افندی ابھی دھاڑے ہی تھے کہ
وہ کسی نازک شاخ کی طرح اریان کی باہوں میں جھول گئی تھی ۔۔۔
کمینے گھٹیا انسان کیا کیا ہے تم نے میری بیٹی کے ساتھ
میری بیٹی کو چھوڑو اور دفع ہو جاؤ یہاں سے
میں بہت زیادہ طلاق کے کاغذات تمہیں بھجوا دوں گا
اس پہ سائن کر دینا اور اب دوبارہ اپنی شکل مجھے
کبھی مت دکھانا ۔۔
ارتضی آفندی زرین کو اریان کی باہوں سے دور کرتے
صوفے پہ لٹاتے اریان کا گریبان پکڑتے اس پہ چیخے تھے ۔۔
کیا کہا اپ نے طلاق کے پیپر مجھے بھیجیں گے میں اپ کو اخری دفعہ وان کر رہا ہوں ۔ اپ میری بیوی اور میرے درمیان مت ائیں
زرین کے ساتھ جو بھی معاملات ہیں وہ میرے اور
اس کے ہیں میں اس کو دیکھنا لوں گا اپ سے
پہلے زرین کو میں جانتا ہوں
وہ میری بیوی ہے اور اپ جو نقلی باپ اس کے بنے ہوئے ہیں
نا میں اپ کو کہہ رہا ہوں کہ میری بیوی مجھے
واپس کر دیں یہ نا ہو کہ مجھے کوئی قانونی راستہ اختیار کرنا پڑے ۔۔۔
اریان بھی اتضی آفندی پہ چیخا تھا وہ ایک جھٹکے سے ان سے اپنا گریبان آزاد کراتا بولا تھا۔
قانونی راستہ اختیار کرو گے ۔۔؟؟
تم کیا کرو گے یہ میں کروں گا۔۔۔
تمہارے بارے میں کون نہیں جانتا ۔۔تم نے جتنے جرم کیے ہیں نا اریان خانزادہ تمہیں تو میں ساری زندگی کے لیے جیل میں سڑنے کے لیے بھیجوں گا ۔۔۔
زرین کو ہوش آلینے دو ۔۔
زرین خود تمہارے خلاف گواہی دے گی کہ تم نے اس کو زبردستی اغوا کیا اور اس کے ساتھ زیادتی کی ۔۔۔
میں تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑوں گا۔۔
مسٹر ارتضی اپ مجھے بالکل بھی کمزور مت سمجھیے گا
اگر اپ یہ سب کچھ کریں گے تو یاد رکھیے گا میں
اپ کے ساتھ وہ کروں گا جو اپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا
میرا نام بھی
اریان خانزادہ ہے
اپنی چیز کو میں کسی صورت نہیں چھوڑتا۔۔۔
گارڈز گارڈز
ارتضا افندی گارڈز کو بلا رہے تھے ۔۔۔
تبھی دو ہٹے کٹے گارڈز دوڑتے ہوئے آگئے تھے۔۔
اس کتے کو اٹھا کے باہر پھینک دو۔۔
ارتضی آفندی اریان کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے
بول رہے تھے
جبکہ اریان ارتضی فندی کو گھورتا
اپنی حد میں رہیں مسٹر ارتضی یہ نا ہو کہ میں اپنی بیوی کو دوبارہ سے اغواہ کر کے یہاں سے بھی لے جاؤں
وہ گارڈ سے اپنا بازو چھڑواتا گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔
پیچھے ارتضی آفندی زرین کو اپنی گود نے اٹھائے
اندر کی طرف دوڑ پڑے تھے نورین آفندی بھی ان کے
پیچھے ہی چل پڑی تھی وہ افسوس سے سر ہلاتی جا رہی تھیں یہ جو کچھ بھی ہو رہا تھا بہت غلط ہو رہا تھا ۔
0 Komentar